لکھاری ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔
لکھاری ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔

اب جبکہ الیکشن میں تین ہفتے سے بھی کم کا وقت رہ گیا ہے تو سابق وزیرِ اعظم نواز شریف اور ان کی بظاہر سیاسی جانشین اور بیٹی مریم نواز کو احتساب عدالت سے کرپشن مقدمے میں سخت سزاؤں سے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے سامنے سخت سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔

بلاشبہ اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا اور دونوں رہنما جو اس وقت نواز شریف کی شدید بیمار اہلیہ کلثوم نواز کے ساتھ موجود ہیں، اپیل کے دوران ضمانت کے لیے درخواست دیں گے۔

پر اگر یہ فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ ان کے گرد گھیرا تنگ کر کے ان کی درخواستِ ضمانت مسترد کرنی ہے، تو پھر پارٹی اس انتخابی مہم کے آخری دنوں میں شدید مشکلات کا شکار ہوجائے گی جس کا پورا دار و مدار باپ اور بیٹی کی سیاسی کشش پر ہے۔

عدالتوں کی جانب سے نواز شریف کو پارٹی عہدہ تک رکھنے سے بھی نااہل کیے جانے کے بعد ان کے وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار اور پارٹی صدر شہباز شریف ملک کے سب سے بڑے صوبے میں اپنی کارکردگی کی بنیاد پر اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔

پڑھیے: 'نواز شریف کے لیے اور کوئی آپشن نہیں بچا ہے'

مگر اس حوالے سے سیاسی مبصرین میں اتفاق ہے کہ نواز شریف اور ان کی بیٹی کی زبردست مہم اور ان کا یہ بیانیہ ان کی عوامی حمایت پا چکا ہے کہ انہیں سویلین بالادستی کا مطالبہ کرنے کی وجہ سے ملکی افواج جیسے طاقت کے مراکز کی جانب سے سزا دی جا رہی ہے۔

حالیہ سرویز کے مطابق مسلم لیگ (ن) کو اس وقت پی ٹی آئی پر صرف باریک سی فوقیت حاصل ہے جبکہ گزشتہ سال تک بھی ان دونوں کے درمیان وسیع فرق موجود تھا۔ ویسے میں ان سرویز کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھتا ہوں، یہاں تک کہ اگر یہ مغرب میں بھی ہوں جہاں ان کے طریقہ کار کو کافی معیاری قرار دیا جاتا ہے۔

اگر مہم مکمل طور پر شہباز شریف پر چھوڑ دی جائے تو یہ باریک سی فوقیت بھی اب شدید مشکلات کا شکار ہوگی۔ شہباز شریف کو ویسے تو ایک مؤثر منتظم کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو میگا پروجیکٹس کو کم سے کم وقت اور بجٹ میں مکمل کروا سکتے ہیں، مگر ان کی شخصیات میں وہ کرشماتی کشش موجود نہیں ہے۔

اور یہ عنصر کس قدر اہم ثابت ہو سکتا ہے، اس کا اندازہ عدالتی فیصلہ آنے کے بعد ایک نیوز کانفرنس میں شہباز شریف کے فوری ردِ عمل سے لگایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے بے دلی سے عدالتی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اسے 'سیاسی بنیادوں' پر دیا گیا فیصلہ کہا۔

اگر کوئی شخص شہباز شریف سے اس سے زیادہ، مثلاً آتش بازی اور باغیانہ الفاظ کی توقع کر رہا تھا، تو ان کی بے ذوق کارکردگی اور تقریباً شکست خوردہ لہجے نے ان کی توقعات پر پانی پھیر دیا ہوگا اور پارٹی کی صفوں کا مورال گرا دیا ہوگا۔ جیسا کہ ایک تجزیہ کار کا کہنا تھا، وہ متاثر کرنے میں ناکام رہے۔

میں سمجھ سکتا ہوں کہ شہباز شریف نے خود کو ملنے والی تصادم کی تجویز کو نظرانداز کرتے ہوئے ان مشیروں کی بات مانی جنہوں نے نرم و ملائم رویہ رکھنے کا مشورہ دیا تھا۔ شاید یہ ممکنہ طور پر طاقتور ریاستی اداروں کے غصے سے بچنے کے لیے ایک کافی عملیت پسند کام تھا۔

مگر اس سے جو چیز حاصل نہیں ہوگی، وہ ووٹروں کی حمایت اور ووٹروں میں تحرک ہے؛ کارکن مسلم لیگ (ن) کے صدر کے ہی رویے کی پیروی کریں گے، جو کہ خود تھکے ماندے نظر آئے۔ جب یہ الفاظ لکھے جا رہے تھے، تو نواز شریف نے اعلان کیا کہ جیسے ہی ان کی اہلیہ ہوش میں آئیں گی تو وہ ملک واپس آ جائیں گے (ان کی واپسی کی حتمی تاریخ کا ابھی بھی انتظار ہے) اور ان کا سامنا کریں گے جنہوں نے جج کو "یہ فیصلہ سنانے کے لیے تھمایا"۔ مریم نواز بھی اتنی ہی باغیانہ نظر آئیں۔

پڑھیے: مجھے ایسے پیغام ملتے رہے کہ ’آپ کو تو ہم نہیں چھوڑیں گے‘، مریم نواز

یہ بحران مسلم لیگ (ن) کہلانے والی سیاسی جماعت اور مشین کے لیے ایک امتحان ہوگا جو کہ 1999 کی فوجی بغاوت کے بعد بکھر گئی تھی، جس سے مسلم لیگ (ق) نے جنم لیا، اور اس کی حیاتِ نو صرف تب ممکن ہوئی جب پی پی پی رہنما بینظیر بھٹو نے مہارت سے فوجی رہنما جنرل پرویز مشرف کی چالوں کا سدِ باب کیا۔

یہ بینظیر بھٹو ہی تھیں جنہوں نے نواز شریف کو سعودی عرب اور لندن میں اپنی جلاوطنی ختم کرنے اور 2008 کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے قائل کیا تھا۔ اس کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس تھے، جن کو باہر نکالنے کی کوشش مشرف کو مہنگی پڑی اور انہیں کمزور کر گئی۔ یہی چیز نواز شریف کے حق میں بھی کام کر گئی جس سے وہ 2008 میں پنجاب میں اور 2013 میں ملک میں حکومت حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

باپ اور بیٹی کا سرکش رویہ اور اپنی مشکلات کا منصوبہ ساز فوج کو قرار دینا عوامیت پسند سیاست جیسا تھا، ایسی سیاست جس کے ذریعے بینظیر بھٹو جیسی رہنما نے مقبولیت حاصل کی۔ اگلے چند ہفتے واضح کر دیں گے کہ آیا مسلم لیگ (ن) اپنے گڑھ پنجاب میں ایسی سیاست کر سکتی ہے یا نہیں۔

مسلم لیگ (ن) اور شریف خاندان کی حالیہ مشکلات کا کوئی بھی تجزیہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا جن کے کریڈٹ پر وہ سخت لڑائی ہے جس کی وجہ سے شریف خاندان ان مقدمات میں پھنسا۔

جب پاناما پیپرز سب سے پہلے سامنے آئے تو اس وقت شریف خاندان (بھلے ہی نواز شریف کا نام ان میں موجود نہیں تھا) کو لندن میں موجود جائیدادوں کا مالک قرار دیا گیا تھا۔ عمران خان نے تنِ تنہا اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے کی لڑائی لڑنے کا فیصلہ کیا۔

بے حد پراعتماد نواز شریف، جنہیں شاید پارلیمنٹ میں اپنی زبردست اکثریت کی وجہ سے اعتماد تھا، نے اپوزیشن میں موجود پی پی پی کی بات نہ سننے کا فیصلہ کیا جب خورشید شاہ نے اسکینڈل پر پارلیمانی کمیٹی قائم کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

یہ مسئلے کو طویل گھاس میں دبا دینے جیسا تھا مگر ایسا نہیں ہونے والا تھا۔ ایک بار جب نواز شریف نے پی پی پی کی تجویز کو مسترد کر دیا اور جب ابتدائی ہچکچاہٹ کے بعد سپریم کورٹ نے عمران خان اور دیگر سیاستدانوں کی درخواستیں سماعت کے لیے منظور کیں، تو اس حوالے سے کوئی یقینی کیفیت نہیں تھی کہ کیس کس سمت میں جائے گا۔

پڑھیے: ’میری 22 سالہ جدوجہد کی وجہ سے آج ایک طاقتور کو سزا ہوئی‘

پھر سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا اور اس کے بعد احتساب عدالت کا یہ فیصلہ۔ اس مرحلے پر کئی لوگ پوچھ رہے ہوں گے کہ کیا نواز شریف کا کھیل ختم ہو چکا ہے؟ ان کے مستقبل کی چابی ان کے ہاتھ میں ہے، بھلے ہی اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کا شکار میڈیا ان سے ہمدردی رکھتا ہو یا نہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ وہ جلد ہی واپس آ جائیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو وہ جیل میں ہونے کے باوجود سیاسی طور پر اہم رہیں گے اور ممکنہ طور پر انتخابات سے پہلے اہم عوامی حمایت کو ابھار سکیں گے۔

ان کی واپسی کا وقت اہم ہوگا، اور فیصلہ مشکل، کیوں کہ ان کی اہلیہ اب بھی شدید بیمار ہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 7 جولائی 2018 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں