قادر بلوچ چمن پھاٹک کے علاقے میں موجود منگل نامی ایک ہوٹل میں روزانہ آتے ہیں، اور وہ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد اپنا زیادہ تر وقت گھر میں گزارتے ہیں۔

لیکن حال میں بلوچستان میں صوبائی حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد انہوں نے اپنے 30 سالہ بھتیجے محمد یحییٰ کے ساتھ چائے پینے کے لیے گھر سے باہر نکلنا شروع کردیا۔ یحییٰ صوبے میں حال میں وجود میں آنے والی نئی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے کارکن ہیں۔

دونوں چچا بھتیجے کا تعلق بلوچستان کے ضلع چاغی سے ہے، اور دونوں عمومی طور پر گرمیوں کے دنوں میں کوئٹہ آتے ہیں۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی بلوچستان کے صدر انتخابات کے لیے اہل قرار

قادر بلوچ اور ان کے بھتیجے اس ادنیٰ سے ہوٹل میں بیٹھے رہتے ہیں لیکن وہ چاغی اور رخشان کی سیاست پر متفق نظر نہیں آتے، اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دونوں کے درمیان ہونے والا یہ مباحثہ مزید تیز ہوتا جارہا ہے۔

حالیہ حلقہ بندیوں سے قبل قومی اسمبلی کی نشست این اے 268 بلوچستان کے 5 اضلاع پر مشتمل تھی جس میں چاغی، نوشکی، مستونگ قلات اور سکندر آبار شامل تھے۔ یہ پاکستان میں آبادی اور زمینی اعتبار سے سب سے بڑا حلقہ تھا۔

یہاں پر مقامی افراد کے شدید احتجاج کے بعد اب یہ حلقہ چاغی، نوشکی اور خاران پر مشتمل ہے، اور یہ پورا علاقہ رخشان ڈویژن کہلاتا ہے جو بلوچستان کے مغربی علاقے میں موجود ہے، جس کی سرحدیں ایران اور افغانستان سے ملتی ہیں۔

چاغی میں محمد یحییٰ کا پسندیدہ امید وار امان اللہ نوٹزئی ہے جو صوبائی اسمبلی کی نشست پی بی 34 سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، لیکن یہاں محمد یحییٰ کے لیے پریشانی کی بات یہ ہے اسی حلقے سے چیئرمین سینیٹ کے بھائی اعجاز سنجرانی بھی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ ان دنوں افراد کا طویل عرصے سے انتخابی اتحاد تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان اسمبلی سے انتخابات میں تاخیر کی قرارداد منظور

اپنی سگریٹ جلاتے ہوئے قادر بلوچ نے محمد یحییٰ سے مخاطب ہوکر کہا کہ ’اس مرتبہ امکان ہے کہ الیکشن میں تمہارا امیدوار ہار جائے گا‘ جس پر محمد یحییٰ نے کہا کہ ’اس وقت انتخابات کے حوالے سے پیشن گوئی کرنا قبل ازوقت ہوگا‘۔

تاہم چاغی کے ہیڈ کوارٹر دالبدین میں موجود ایک رپورٹر علی رضا رند بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عارف جان محمد حسنی اور امان اللہ نوٹزئی کے مابین پی بی 34 پر سخت مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔

رخشان ڈویژن میں ہمیشہ ہی سیاس کی کھچڑی بنی رہی ہے، اور ان تین اضلاع میں تقریباً تمام ہی سیاستدان ہمیشہ سے ’لوٹے‘ کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔

بلوچستان کا یہ حصہ نظریاتی سیاست کے حوالے سے کبھی مشہور نہیں ہوا، بلکہ یہاں پر انتخابی امیدوار اور ان کے دولت سے بھرے بیگ زیادہ مشہور ہیں۔

انگلش میں پڑھیں


یہ مضمون 9 جولائی کو ڈان اخبار میں شائع ہوا

تبصرے (0) بند ہیں