آکا: سناؤ کیسے احوال ہیں؟

باکا: پتلے۔

آکا: اور حالات؟

باکا: سنگین۔

آکا: موسم کیسا ہے آجکل؟

باکا: ووٹوں کا موسم ہے۔

آکا: میں نے تو سنا تھا کہ سخت گرمی ہے، بہرحال بات تو ایک ہی ہوئی۔ یہ بتاؤ ووٹ دو گے؟

باکا: ہاں بالکل۔

آکا: اچھا! کسے؟ پی پی کو؟

باکا: نہیں۔

آکا:تو پھر نواز لیگ کو؟

باکا: ارے نہیں یار۔

آکا: اچھا تو پھر عمران خان کو دو گے؟ تبدیلی کے خواہاں ہو؟

باکا: اُسے کون دیتا ہے؟

آکا: تو پھر؟

باکا: ایک آزاد اُمیدوار ہے۔

آکا: اچھا؟ پھر تو وہ بہت قابل ہوگا۔

باکا: ہاں بالکل!

آکا: ضرور تم اُس کے نظریات سے مطمئن ہوگے۔

باکا: ہاں اُس نے ہمارے تمام کام کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

آکا: اچھا؟ یقیناً پھر اُس نے تعلیم اور صحت کے لیے بہترین منصوبے وضح کیے ہوں گے، دہشت گردی کا قلع قمع کرنے اور فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے عمدہ اطوار بیان کیے ہوں گے، توانائی کی کمی پوری کرنے کے لیے بھی واضح نصب العین ہوگا اور معاشی پالیسی بھی جامع ہوگی جس سے تمہارے اور تمہارے بچوں کا معیارِ زندگی بلند ہوگا اور تمہارے جان و مال محفوظ رہیں گے اور ایک روشن مستقبل ہوگا۔ یعنی ایک جامع منشور ہے۔

باکا: منشور وغیرہ جو بھی ہو، سانوں کی؟ مجھے اور بڑے کام ہیں۔

آکا: مثلاً کیا؟

باکا: میرا بڑا بیٹا ڈکیتی کے الزام میں اندر ہے، ملک صاحب کہہ رہے تھے کہ جیت کر اُسے چھڑوا دیں گے، چھوٹے کی انٹر میں سپلی ہے اس کا داخلہ میڈیکل کالج میں کروانا ہے، بہنوئی کے ساتھ زمین کا جھگڑا چل رہا ہے ملک صاحب کہہ رہے تھے کہ جیت کر وہ پٹواری سے کہلوا کر ساری زمین میرے نام کرا دیں گے اور پھر کیس بے شک چلتا رہے۔

آکا: اور تم ان وجوہات کی بناء پر اُسے ووٹ دو گے؟ تم اسے ٹھیک سے جانتے بھی ہو۔

باکا: ہاں بڑی واقفیت ہے میری۔

آکا: اچھا! کیسے؟

باکا: میں کافی عرصے اس کے ڈیرے کا مینیجر رہا ہوں۔

آکا: ڈیرے کا مینیجر؟

باکا: ہاں بھئی، اکیلا اُن کے جانوروں کی رکھوالی کرتا تھا، اُن کے گھوڑوں سے بڑی نیاز مندی ہے میری۔

آکا: گھوڑوں سے نیاز مندی؟

باکا: ہاں بھئی صرف میرے ہاتھ سے مربے کھاتے تھے وہ۔

آکا: تمہارے ملک صاحب تو بڑے شوقین مزاج ہیں۔ گھوڑے بھی پال رکھے ہیں!

باکا: ہاں جی انہی گھوڑوں سے تو ان کا کاروبار ہے؟

آکا: وہ کیسے؟ کیا بریڈ کرتے ہیں؟

باکا: نہیں ریسوں میں دوڑاتے ہیں اور کمائی کرتے ہیں۔

آکا: یعنی جوا؟

باکا: نہیں نہیں، کاروبار!

آکا: بس اتنا ہی جانتے ہو اُنہیں؟

باکا: نہیں بڑی قربت ہے میری، کئی دفعہ اُن کے ساتھ شہروں میں جانا ہوا ہے۔

آکا: اپنے علاقے میں سہولیات کی فراہمی کے لیے؟

باکا: نہیں گیس کے کوٹے منظور کرانے کے لیے۔

آکا: یعنی سفارش؟

باکا: نہیں، تعلقات!

آکا: اور اس سب کے باعث تم اسے ووٹ دو گے؟

باکا: تو کیا یہ کم ہے؟ وہ مجھ پر بڑا اعتبار کرتے ہیں، انہوں نے صرف مجھے یہ بتایا ہے کہ اگر وہ الیکشن جیت گئے تو جس پارٹی کی بھی حکومت بنی، اُس میں شامل ہوجائیں گے۔

آکا: یعنی لوٹا پالیسی!

باکا: نہیں، سیاسی بصیرت!

آکا: یہ بتاؤ تمہارا کاروبار کیسا چل رہا ہے؟

باکا: پچھلے ایک سال سے تو ٹھپ تھا مگر اب دوڑے گا۔

آکا: وہ کیسے؟

باکا: میں نے رمضان میں استعمال ہونے والے بینروں کے ڈندے اور بانس اکھٹا کرلیے تھے اب انہیں مہنگے داموں بیچوں گا، اچھا منافع ملے گا۔

آکا: یعنی ذخیرہ اندوزی؟

باکا: نہیں، سرمایہ کاری!

آکا: اور اس کے علاوہ بھی تمہارا کوئی ذریعہ معاش ہے؟

باکا: ہاں اور کل سے تو میں بڑا مصروف ہونے والا ہوں۔

آکا: کیوں کیا کوئی نوکری شروع ہوگی کل سے؟

باکا: یہی سمجھو، ملک صاحب کی انتخابی مہم شروع ہونے والی ہے۔

آکا: تمہیں کیا کرنا ہے اس مہم میں؟

باکا: بڑے ضروری کام ہیں میرے ذمے۔

آکا: پھر بھی پتہ تو چلے کہ کیا کرو گے؟

باکا: بس جو ملک صاحب کہیں گے، کروں گا۔ مخالفین کے گھر کی خبریں لیک کرکے انہیں نیچا دکھانا ہے، ہر جلسے میں نعرے لگانے ہیں، بڑی اہم ذمہ داریاں ہیں مجھ پر۔

آکا: تو اس کے عوض تمہیں کیا ملے گا؟

باکا: ملک صاحب بڑی شفقت فرماتے ہیں، کہہ رہے تھے کہ سال کی گندم اور 1200 روپے دیہاڑی بھی دیں گے۔

آکا: اور اتنے پیسوں کا تمہیں کیا کرنا ہے؟

باکا: کچھ کام ہیں مجھے۔

آکا: پتہ تو چلے؟

باکا: میری بیوی کو ٹی بی ہے، ہمارے علاقے کا ہسپتال مدت سے بند ہے، اُسے کسی بڑے ہسپتال لے جانا ہے۔

آکا: اور اس کے علاوہ؟

باکا: اور میرے بھائی کا سبزی کا ٹھیلا ہے، کچھ دن پہلے کمیٹی والے ہمیں یہ کہہ کر گئے ہیں کہ یہ تجاوزات میں آتا ہے۔

آکا: تو کیا تم اسے ایک نئی دکان بنا کر دو گے، قانون کے عین مطابق؟

باکا: ارے نہیں کمیٹی والوں کا بندہ کہہ رہا تھا کہ تھوڑا چائے پانی دو، 15 یا 16 ہزار، تمہارا ٹھیلا لیگل کردیں گے۔

آکا: یعنی رشوت؟

باکا: نہیں، چائے پانی۔

آکا: اچھا تو پھر تم الیکشن کے بعد کیا کرو گے؟

باکا: اگر تو ملک صاحب جیت گئے تو ان کے دفتر کا مینیجر لگ جاؤں گا۔

آکا: اور اگر ہار گئے؟

باکا: تو پھر اُن کے ڈیرے کا۔

آکا: تمہارا ضمیر تمہیں ملامت نہیں کرتا؟

باکا: کیوں میں نے کیا کِیا ہے؟ الحمد للہ مسلمان ہوں، ایمان ہے مجھ میں۔

آکا: اسے تم ایمان کہتے ہو؟

باکا: اور کیا کہوں؟ میرا ضمیر مجھے کچھ نہیں کہتا، اس کا مطلب ہے کہ وہ مطمئن ہے۔

آکا: نہیں اس کا مطلب ہے کہ وہ مرگیا ہے۔ خیر میں کیا کہہ سکتا ہوں، تمہیں ووٹوں کا موسم مبارک ہو!

تبصرے (0) بند ہیں