ضلع میرپور خاص: پی پی پی 'اپنوں' کے ہاتھوں مشکلات کا شکار

24 جولائ 2018
چند دن قبل کی اس فائل فوٹو میں مسلم لیگ فنکشنل سندھ کے صدر، صدرالدین شاہ راشدی سید علی نواز شاہ کے ہمراہ میرپور خاص میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں۔
چند دن قبل کی اس فائل فوٹو میں مسلم لیگ فنکشنل سندھ کے صدر، صدرالدین شاہ راشدی سید علی نواز شاہ کے ہمراہ میرپور خاص میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں۔

1970 میں ملک میں پہلے عام انتخابات سے لے کر اب تک میرپورخاص پاکستان پیپلز پارٹی کا قلعہ رہا ہے۔ پارٹی ضلعے میں ایک صوبائی اسمبلی کی نشست پی ایس 64 (حالیہ پی ایس 47) کو چھوڑ کر تمام نشستوں پر کامیاب ہوتی آئی ہے۔ صوبائی اسمبلی کی یہ نشست 2002 سے ایم کیو ایم کے پاس رہی ہے۔

میرپور خاص میں قومی اسمبلی کی دو نشستیں این اے 218 اور این اے 219 ہیں، جبکہ یہاں صوبائی اسمبلی کی پی ایس 47 سے پی ایس 50 تک چار نشستیں ہیں۔

این اے 218 میں لگتا ہے کہ پی پی پی کو مشکلات کا سامنا ہے کیوں کہ یہاں سید علی نواز شاہ نے آزاد امیدوار کے طور پر لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ شاہ کا مقابلہ پی پی پی کے پیر حسن علی شاہ سے ہے جو کہ پیر آفتاب حسین شاہ جیلانی کے بیٹے اور پیر شفقت حسین شاہ جیلانی کے بھتیجے ہیں۔ یہ دونوں اسی حلقے سے رکنِ قومی اسمبلی رہ چکے ہیں۔

پی پی پی کو یہاں پر سخت مقابلے کا سامنا ہے کیوں کہ سید علی نواز شاہ کو گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم پی) کی حمایت حاصل ہے۔

شاہ اس ضلع میں غیر معروف نہیں ہیں۔ وہ ایم پی اے، ایم این اے، سینیٹر اور وفاقی وزیر رہ چکے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ان کا شمار اب آصف علی زرداری اور فریال تالپور کے قریبی لوگوں میں نہیں ہوتا۔ اس کی مثال ٹکٹ حاصل کرنے میں ان کی ناکامی ہے۔ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وہ کچھ عرصہ پہلے تک بھی پی پی پی کے میرپورخاص ڈویژن کے صدر تھے، تو ہمیں ان کا یہ موجودہ اقدام کافی حیران کن نظر آتا ہے۔

ایک سرکاری افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ "سید علی نواز شاہ نے پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی میں فریال تالپور کی موجودگی پر سوال اٹھا کر انہیں شرمندہ کر دیا تھا، کیوں کہ وہ کمیٹی کی رکن نہیں تھیں۔"

انہوں نے بتایا کہ "اس واقعے نے انہیں پی پی پی کی اعلیٰ قیادت کے خلاف لا کھڑا کیا اور پھر یہ فیصلہ کر لیا گیا تھا کہ انہیں ٹکٹ نہیں دیا جائے گا۔"

وہ کہتے ہیں کہ "مگر علی نواز شاہ غریب عوام میں مقبول ہیں کیوں کہ انہوں نے اسمبلی یا وزارت میں اپنے وقت کو ہمیشہ عوام کی خدمت کے لیے استعمال کیا ہے۔ انہیں اس سے فرق نہیں پڑتا کہ پی پی پی انہیں ٹکٹ دیتی ہے یا نہیں۔"

علی نواز شاہ میرپور خاص کے صوبائی حلقے پی ایس 48 میں اپنے بھتیجے ذوالفقار علی شاہ کے خلاف بھی لڑ رہے ہیں جو کہ پی پی پی کے ٹکٹ یافتہ ہیں۔ یہ حلقہ سندھڑی تعلقے پر مشتمل ہے جہاں مسلم لیگ فنکشنل کا بھی خاصی تعداد میں ووٹ بینک موجود ہے۔

چنانچہ علی نواز شاہ این اے 218 اور پی ایس 48 میں پی پی پی کے لیے مشکلات کھڑی کرنے کی پوزیشن میں ہیں کیوں کہ ان کی جی ڈی اے کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو چکی ہے۔ جی ڈی اے نے شاہ اور پی ایس 49 پر آزاد امیوار کے طور پر لڑ رہے ان کے بیٹے شجاع محمد شاہ کے خلاف کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا ہے۔

جی ڈی اے نے پی ایس 50 پر پی پی پی کے طارق علی کے خلاف سابق وزیرِ اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم کے بیٹے ارباب عنایت اللہ کو ٹکٹ دیا ہے۔

ضلع میرپور خاص کا نقشہ
ضلع میرپور خاص کا نقشہ

جی ڈی اے، ایم کیو ایم اور علی نواز شاہ کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ

ایم کیو ایم اور جی ڈی اے نے حال ہی میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا معاہدہ کیا ہے جس کے تحت ایم کیو ایم جی ڈی اے کے امیدوار ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کی این اے 219 اور ارباب عنایت اللہ کی پی ایس 50 پر حمایت کرے گی۔ اس کے علاوہ ایم کیو ایم پی پی پی کے سابقہ رہنما علی نواز شاہ کی این اے 218 اور پی ایس 48 پر بھی حمایت کرے گی۔

چند دن قبل ایم کیو ایم میرپور خاص کے رہنماؤں نے ڈاکٹر رحیم سے ملاقات کی اور بعد میں اعلان کیا کہ وہ اپنے امیدوار سنجے پروانی (این اے 218)، میر شاہ محمد تالپور (پی ایس 48) اور رانا طارق (پی ایس 49) کو علی نواز شاہ اور ان کے بیٹے سید شجاع محمد شاہ (پی ایس 49) کے حق میں دستبردار کروا دے گی۔ علی نواز شاہ اور ان کے بیٹے کو جی ڈی اے کی حمایت پہلے ہی حاصل ہے۔

بدلے میں ایم کیو ایم نے پی ایس 47 پر جی ڈی اے اور علی نواز شاہ کے ووٹروں کی حمایت طلب کی، جہاں پر اس نے پی پی پی کے رہنما اور سابق سینیٹر ہری رام کشوری لال کے خلاف مجیب الحق کو بطور امیدوار کھڑا کیا ہے۔

پی ایس 47 میرپور خاص کے شہری علاقوں پر مشتمل ہے اور اس میں حال ہی میں حسین بخش مری تعلقہ بھی شامل ہوا ہے۔ پرانی نشست پی ایس 64 میرپور خاص-1 گزشتہ انتخابات میں ایم کیو ایم نے جیتی تھی کیوں کہ شہری میرپور خاص میں اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ مگر نئے پی ایس 47 میں تعلقہ حسین بخش مری سے توازن ہری رام کشوری لال کے حق میں چلا گیا تھا جہاں پر اقلیتی برادری کا خاصہ ووٹ بینک ہے۔

یہیں ایم کیو ایم کو حمایت کی ضرورت تھی، اور جی ڈی اے اور علی نواز شاہ کی جانب سے ایم کیو ایم کے امیدوار کی حمایت نے ہری رام کشوری لال کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ پہلے انہیں پی ایس 47 کا مضبوط ترین امیدوار سمجھا جا رہا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ ہری رام کشوری لال کو مذہبی حلقوں کی جانب سے مخالفت کا بھی سامنا ہے۔

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ پی پی پی کے خلاف یہ تکونا اتحاد ضلعے کی تمام قومی اور صوبائی نشستوں پر پی پی پی کے خلاف سخت مقابلہ کرے گا۔

سب سے زیادہ گرم مقابلہ جس نشست پر ہوگا وہ این اے 219 ہے جہاں فریال تالپور کے شوہر میر منور علی خان تالپور جی ڈی اے کے ارباب غلام رحیم کے ساتھ مقابلے میں ہیں۔

مگر تالپور کا کام اس حلقے (سابقہ این اے 227) کی عمرکوٹ سے علیحدگی کی وجہ سے آسان ہو گیا ہے۔

ایک مقامی مبصر کہتے ہیں کہ "اگر ارباب غلام رحیم کو عمرکوٹ کی مقامی برادریوں کی حمایت حاصل ہوتی تو ان کا اچھا چانس تھا۔"

انگلش میں پڑھیں.

یہ رپورٹ ڈان اخبار میں 23 جولائی 2018 کو شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں