فائل فوٹو—
فائل فوٹو—

یہ کہنا کافی صحیح ہو گا کہ 25 جون کو پرائم منسٹر منموہن سنگھ کا کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کے ساتھ سرینگر کا دورہ، کشمیر کے بارے میں انکی موجودہ پالیسیوں میں کوتاہی کی اتنی ہی عکاسی کرتا ہے جتنا کہ وہ محدود ریل لنک، جس کا افتتاح انہوں نے اگلے دن کیا- یہ ریل لنک جموں میں بنی ہل اور قاضی گند (وادی کا صدر راستہ) کے درمیان بنایا گیا ہے-

انہوں نے بمشکل 18 کلومیٹر کے سیکشن پر پہلی ٹرین دوڑائی- جس کا مقصد انڈیا کے وسیع ریلوے  نیٹ ورک کو آپس میں جوڑنا ہے- یہ لنک لائن آف کنٹرول کے قریب، براستہ سرینگر سے بارامولا تک، جموں کو جوڑے گا- تاہم، نگران اور آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق، سب سے مشکل فاصلہ کاترا اور بانی ھل کے درمیان (117 کلومیٹر)' " صرف 12 سے 14 فیصد مکمل ہو سکا ہے"-

تاہم، کچھ واضح کامیابیاں ہوئی ہیں- بھلے وہ ایک ریل لنک میں ہی ہو جو "کشمیر تک جانے کے بجاۓ کشمیر کے اندر ہی بنایا گیا"- لیکن پرائم منسٹر کی کشمیر پر پالیسیوں کے فوائد کہیں زیادہ کم ہیں- یہ بڑے افسوس کی بات ہے کیوں کہ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ کیا گیا ہے کہ وہ اس حوالے سے مخلص ہیں اور وہ اس تعطل کو توڑنے کے لئے بے چین ہیں- اس وقت سب سے فکرانگیز یہ بات ہے کہ سرینگر کے ان کے دو روزہ دورے میں کسی پالیسی کا اعلان بلکل مفقود تھا-

ان کی اس خاموشی کا مطلب یہ کہ وہ 2014 کے انتخابات سے پہلے کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے جیسا کہ پچھلے 25 سالوں سے ہو رہا ہے- وزیر اعظم کے دورے کے دوران، وادی کو پوری طرح سے بند کر دیا گیا- فقط ایک دن پہلے، سرینگر میں حزب المجاہدین کے حملے میں آٹھ فوجیوں کی موت اور قریباً ایک درجن زخمیوں نے یہ ثابت کردیا کہ عسکریت پسند ابھی زندہ ہیں-

فوج کی تعریف اور دہشتگردی کی مذمت اس ضمن میں برابر ہیں- انہوں نے وہاں وہی پرانی گھسی پٹی تان لگائی، "وہ جو تشدد ترک کر دیں گے، ہم ان  سے بات کرنے کے لئے تیار ہیں"- اور اس کے ساتھ عوام سے یہ درخواست کی گئی کہ انتخابات میں "باقاعدہ حصّہ" لیا جاۓ، جو کہ اگلے سال منعقد ہونگے-

چیف منسٹر عمر عبدللہ کی نیشنل کانفرنس کا مرکز کی حکمران جماعت کانگریس سے اتحاد ہے، اور وادی میں اس کی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے- ان کے اس اتحاد سے لوگوں کو کیا فائدہ حاصل ہوگا؟

وہ اقتدار میں تو ہیں لیکن ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے- انہیں ہر واحد مسئلے پر مسترد کر دیا- مسلح افواج کے اسپیشل پاور ایکٹ کی منسوخی، کشمیر کی خودمختاری کی بحالی، فوج کے قبضے میں موجود زمینوں کی واپسی،  سررینڈر کرنے والے جارحیت پسندوں کی بحالی، وغیرہ- وہ بار بار اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ صرف اقتصادی بحالی سے لوگوں کو مطمین نہیں کیا جا سکتا-

اکتوبر سنہ 2009 میں، منموہن سنگھ کی موجودگی میں انہوں نے اننت ناگ پر کہا کہ "کشمیری نوجوانوں نے 21 سال پہلے بندوقیں پیسے کے نام پر نہیں بلکہ سیاسی وجوہات کی بنا پر اٹھائی تھیں"-

جولائی سنہ 2010 میں انہوں نے مزید کھلے الفاظ میں کہا کہ "کشمیر کے مسائل کا علاج سیاسی ہے، یہ ملازمتوں، سڑکوں، پلوں اور انتظامیہ کے بارے میں نہیں ہے- مرکز کو اس کا حل معنی خیز گفتگو سے نکالنا ہوگا"-

جس سوال کا جواب انہوں نے نہیں دیا وہ یہ کہ آخر انہوں نے حالات بہتر بنانے کے لئے خود کیا اقدامات کیے؟ سید علی شاہ گیلانی، کمزور اور خراب صحت کے ساتھ، ایک لمبے عرصے سے نظربند ہیں-

عمر عبدللہ کی حکومت، بخشی غلام محمد کے بعد سے، سب سے زیادہ جابر حکومت ہے-

جون 2010، میں سابقہ انڈین آرمی چیف وی. کے. سنگھ بھی وہی کہتے نظر آۓ جو ان کے پیشرو حکام اور کشمیر کے کورپس کمانڈر پچھلے کئی سالوں سے کہتے آرہے ہیں- "میں یہ محسوس کر رہا ہوں کہ یہاں سیاسی اقدامات کی اشد ضرورت ہے جو تمام لوگوں کو ایک ساتھ آگے لے کر چلے- فوجی طور پر ہم نے جموں اور کشمیر کے داخلی معاملات کو سختی سے کنٹرول میں کر لیا ہے- اب، ضرورت ہے چیزوں کو سیاسی ڈھنگ سے نپٹنے کی"-

انکی اس بات کو کہے ہوے، تین سال خاموشی سے گزر گۓ- جارحیت پسندی میں کمی آئی ہے- لیکن مصالحت کے لئے سیاسی کوششوں کا ہلکا سا شائبہ بھی دیکھنے میں نہیں آیا- جبر سے تنگ آۓ، پولیس کی بدسلوکیوں سے برافروختہ، کشمیر کے اندر اور باہر، مرکز کی بے رخی کی وجہ سے بےعزتی سہتے سہتے، کشمیر کے نوجوان، ایک بار پھر لگتا ہے ہتھیار اٹھانے کا سوچ رہے ہیں- اس بار قیادت، تعلیم یافتہ جوانوں کے ہاتھ میں ہوگی- اگر یہ سب اسی ڈھنگ سے چلتا رہا تو لیڈروں کی تحریک، نوجوانوں کو روکنے اور قابو میں رکھنے کے قابل نہیں رہے گی-

ہفتہ وار تہلکہ میں ریاض ونی کی حالیہ رپورٹ خطرے کی گھنٹی ہے اور بہت اہمیت کی حامل ہے-  "15 سے 25 سال کی عمر کے جوان جو تعلیم یافتہ بھی ہیں اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، جہاد میں اپنی مرضی سے میں شامل ہورہے ہیں اور وادی کے جارحانہ پس منظر کو تیزی سے بدل رہے ہیں- اس کی تربیت کے لئے انہیں لائن آف کنٹرول کے پار نہیں جانا پڑ رہا- وہ کہیں سے ہتھیار حاصل کر لیتے ہیں یا پھر سیکورٹی اہلکار سے چھین کر اسے استعمال کرنا خود ہی سیکھ لیتے ہیں"- ایک پولیس افسر نے کہا- 'ان میں سے کچھ جارحیت پسندوں میں تھرل کی تلاش میں  شامل ہوتے ہیں تاکہ انہیں زندگیوں میں کوئی معنی مل سکے اور انہیں احساس ملے کہ وہ بھی کسی تحریک سے تعلق رکھتے ہیں'-

پچھلے چند سالوں کے مقابلے میں جب وہ دب کر رہنا مناسب سمجھ رہے تھے، کشمیری جارحیت پسند اب زیادہ جارح ہوتے جا رہے ہیں- وہ ٹیکنالوجی کا استعمال جانتے ہیں اور انٹرنیٹ کے مواصلاتی ذرایع استعمال کر رہے ہیں جو نہ آسانی سے روکے جا سکتے ہیں نا ہی پکڑے جا سکتے ہیں- جیسے، وائبر، سکائیپ، کاکوا ٹاک، اور دیگر انٹرنیٹ مواصلاتی ٹیکنالوجی-

پولیس کے اندازے کے مطابق جارحیت پسندوں کی تعداد 133 ہے، جبکہ آرمی کے مطابق یہ 345 ہیں- احتجاج کے تمام راستے بند ہیں- سنہ 2001 میں نیو دہلی کی طرف سے بھیجی جانے والی مذاکراتی ٹیم بری طرح ناکام ہوئی کیوں کہ ان کے پاس حکومت کی طرف سے کوئی پیشکش موجود نہیں تھی-

اب ایسے حالات میں یہی امید کی جا سکتی ہے کہ کشمیر کی سیاسی جماتیں اور سیاستدان ایسی قیادت مہیا کریں جو وادی میں موجود سیاسی خلا کو پر کر سکے- لیکن بجاۓ اس کے، ان میں سے ہر کوئی شدت پسندی کا مظاہرہ کرتا نظر آتا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے کہ وہ دوسرے سے زیادہ محب وطن ہیں-

سنہ 2010 میں حریت، صرف  دو آدھے ہی نہیں ہوئی بلکہ بکھرتی ہی چلی گئی- اور اس کی کچھ ذیلی جماعتیں بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوتی چلی گئیں- مسلم لیگ، پیپلز لیگ، مسلم کانفرنس، اور پیپلز کانفرنس-

اس دلدل میں سے نکلنے کا راستہ پاکستان اور انڈیا کے تعلقات میں بہتری میں پوشیدہ ہے اور کچھ محدود اقدامات پر ان دونوں کی رضامندی سے ٹینشن میں تھوڑی کمی آۓ گی اور لوگوں کے حوصلے بلند ہونگے-

افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کے امکانات بہت کم ہیں- جارحیت پسندی اس وقت تک دم نہیں توڑے گی جب تک پاکستان اور انڈیا اس مسئلے کو حل نہیں کر لیتے-


مصنف ایک لکھاری اور وکیل ہیں-

ترجمہ:  ناہید اسرار

تبصرے (0) بند ہیں