آج سے ایک سال قبل 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے 5 رکنی بینچ نے اس وقت کے وزیرِ اعظم نوازشریف کو پاناما پیپرز کیس میں حتمی فیصلہ سناتے ہوئے قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا تھا جس کے ساتھ وہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے بھی نااہل ہوگئے تھے۔

25 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں سپریم کورٹ کے 5 جج صاحبان کی جانب سے وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ نواز شریف نے ’کیپیٹل ایف زیڈ ای‘ سے متعلق کاغذات نامزدگی میں حقائق چھپائے، نواز شریف عوامی نمائندگی ایکٹ کی شق 12 کی ذیلی شق ’ٹو ایف‘ اور آرٹیکل 62 کی شق ’ون ایف‘ کے تحت صادق نہیں رہے، نواز شریف کو رکن مجلس شوریٰ کے رکن کے طور پر نااہل قرار دیتے ہیں، الیکشن کمیشن نواز شریف کی نااہلی کا نوٹیفکیشن فوری طور پر جاری کرے، نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد نواز شریف وزیر اعظم نہیں رہیں گے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا

اس فیصلے کے ساتھ ہی پاکستان میں ایک زبردست سیاسی بحران پیدا ہوا اور کیس میں درخواست گزار پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اس دن کو نہ صرف فتح کا دن قرار دیا، بلکہ اس کے بعد تحریک انصاف نے سیاسی میدان میں پنجے جمانا شروع کردیے اور مسلم لیگ (ن) کے لیے زمین تنگ ہوتی چلی گئی۔

عدالتی فیصلے کے بعد نواز شریف نے وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ چھوڑ دیا جبکہ قومی اسمبلی میں بھاری اکثریت ہونے کی وجہ سے ان کی جماعت کے ایک اور رکنِ قومی اسمبلی شاہد خاقان عباسی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نئے وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔

پاناما پیپرز کیس کی تحقیقات کے دوران نواز شریف اور ان کے دیرینہ ساتھی اور اس وقت کے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کے درمیان اختلافات کی خبریں سامنے آئیں، تاہم اپنے ہر خطاب میں چوہدری نثار علی خان ان خبروں کی تردید کرتے رہے۔

28 جولائی کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے پارٹی کے درمیان پڑنے والی دراڑیں اس وقت نمایاں ہوئیں جب نئے وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں گزشتہ کابینہ کے وزیرِ داخلہ کو شامل ہی نہیں کیا گیا، تاہم اس کے باوجود چوہدری نثار علی خان اپنے موقف پر قائم رہے۔

یہ بھی دیکھیں: پاناما کیس میں وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی پر تحریک انصاف کا جشن

سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے میں قومی احتساب بیورو (نیب) کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ نواز شریف، ان کے صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز، صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے ساتھ ساتھ اسحٰق ڈار کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔

سپریم کورٹ نے نیب کو نواز شریف، مریم نواز، حسین نواز، حسن نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف لندن کے 4 فلیٹس سے متعلق ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا جبکہ نواز شریف، حسن اور حسین نواز کے خلاف عزیزیہ اسٹیل ملز، ہل میٹل سمیت بیرونِ ملک قائم دیگر 16 کمپنیوں سے متعلق بھی ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ اسحٰق ڈار نے ظاہر آمدن سے زائد اثاثے بنائے اُن کے کے خلاف بھی ریفرنس داخل کیا جائے، فریقین کے اقدامات سے بلواسطہ یا بلاواسطہ تعلق ثابت ہو تو شیخ سعید، موسیٰ غنی، کاشف مسعود، جاوید کیانی اور سعید احمد کے خلاف بھی نیب کارروائی کرے۔

نیب نے تمام ملزمان کے خلاف ستمبر میں ریفرنسز دائر کردیے جس کے بعد اسلام آباد کی احتساب عدالت نے کارروائی شروع کی جس کو پورا کرنے کی تاریخ میں توسیع ہوتی رہی۔

مزید پڑھیں: نواز شریف کو فوج کے ساتھ تصادم کی تجویز کون دے رہا ہے؟

نیب ریفرنسز کی سماعت کے دوران حسن نواز اور حسین نواز عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور انہوں عدالت کے سامنے موقف اختیار کیا تھا کہ وہ برطانیہ کے شہری ہیں اور ان کے خلاف پاکستانی عدالت میں کارروائی نہیں ہوسکتی۔

دیگر ملزمان میں سابق وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار بیماری کے باعث برطانیہ چلے گئے جہاں وہ اس وقت زیرِ علاج ہیں، تاہم نواز شریف اور مریم نواز عدالتوں میں پیش ہوتے رہے لیکن اس دوران نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کو کینسر کے مرض کی تشخص ہوئی جو علاج کے لیے اس وقت بھی لندن میں زیرِ علاج ہیں۔

نواز شریف اپنی اہلیہ کی تیمارداری کے لیے لندن کا بھی دورہ کرتے رہے، اسی دوران 6 جولائی 2018 احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو 10 سال، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 سال جبکہ داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی۔

کیپٹن (ر) محمد صفدر نے راولپنڈی میں اپنی گرفتاری دے دی، جبکہ نواز شریف اور مریم نواز کو لندن سے وطن واپسی پر نیب حکام نے لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر انہیں گرفتار کرلیا، جس کے بعد انہیں اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف، مریم نواز گرفتاری کے بعد اڈیالہ جیل منتقل

رواں برس 14 مئی کو نواز شریف نے ایک بیان دیا تھا جس میں انہوں نے ممبئی حملوں کے حوالے سے بات کی تھی، اس بیان کے بعد میڈیا پر ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا تھا۔

اپنے انٹرویو میں نواز شریف نے ممبئی حملوں پر راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں دائر مقدمے کے حوالے سے کہا تھا کہ اس مقدمے کی کارروائی ابھی تک مکمل کیوں نہیں ہوسکی؟ ان کا مزید کہنا تھا کہ عسکری تنظیمیں اب تک متحرک ہیں جنھیں غیر ریاستی عناصر کہا جاتا ہے، مجھے سمجھائیں کہ کیا ہمیں ان کو اس بات کی اجازت دینی چاہیے کہ سرحد پار جا کر ممبئی میں 150 لوگوں کو قتل کردیں؟

ان کا کہنا تھا کہ یہ عمل ناقابل قبول ہے یہی وجہ ہے جس کی وجہ سے ہمیں مشکلات کا سامنا ہے، یہ بات روسی صدر ولادی میر پیوٹن اور چینی صدر ژی جنگ نے بھی کہی تھی۔

نواز شریف کے اس بیان پر بھارت میں پاکستان کے خلاف منفی پروپگینڈا کیا گیا جس کے بعد اندرونی سطح پر بھی نواز شریف کی مقبولیت میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔

نواز شریف اور ان کی جماعت کا حکمرانی کا سفر 31 مئی 2018 کو اختتام پذیر ہوا، تاہم پارٹی قائدین پر مقدمات اور بین الاقوامی اسکینڈل نے پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جس کے باعث کئی اراکین اسمبلی تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرتے رہے۔

پاکستان تحریک انصاف نے 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات سے قبل ہی اپنی کامیابی کا دعویٰ کیا تھا جو درست ثابت ہوا، اور تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کے ساتھ خیبرپختونخوا میں واضح اکثریت حاصل کی جبکہ پنجاب میں بھی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی۔

امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ پی ٹی آئی پنجاب میں بھی اپنی حکومت بناتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کو اس کے گڑھ سے حکومت سے باہر کردے گی۔

پاناما انکشاف

پاناما لیکس کے معاملے نے ملکی سیاست میں اُس وقت ہلچل مچائی، جب گذشتہ سال اپریل میں بیرون ملک ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے 'آف شور' مالی معاملات عیاں ہو گئے تھے۔

پاناما پیپرز کی جانب سے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے، جس میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل تھے۔

ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق، پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان ہیں یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔

موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی ان معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا جا رہا ہے۔

مزید پڑھیں: پاناما کیس کا فیصلہ جاری کرنے والے ججز کون ہیں؟

ان انکشافات کے بعد اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا اور بعدازاں اس حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا۔

سپریم کورٹ نے ان درخواستوں پر سماعت کے بعد رواں سال 20 اپریل کو وزیراعظم نواز شریف کے خلاف پاناما کیس کی مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس کی سماعت مکمل، فیصلہ محفوظ

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے جے آئی ٹی کو حکم دیا تھا کہ وہ 60 روز کے اندر اس معاملے کی تحقیقات مکمل کر کے اپنی رپورٹ پیش کرے جس کی بنیاد پر حتمی فیصلہ سنایا جائے گا۔

جے آئی ٹی نے 2 ماہ کی تحقیقات کے بعد رواں ماہ 10 جولائی کو سپریم کورٹ میں اپنی حتمی رپورٹ جمع کروائی تھی، 10 جلدوں پر مشتمل اس رپورٹ میں وزیراعظم سمیت شریف خاندان پر کئی الزامات لگاتے ہوئے مختلف شواہد سامنے لائے گئے تھے۔

جس کے بعد جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے پانچ سماعتوں کے دوران فریقین کے دلائل سنے اور 21 جولائی کو پاناما عملدرآمد کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا، جو آج سنایا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں