لاہور: وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف شاید ان لوگوں کا نام نہ لیں جنہوں نے ان کے بڑے بھائی کو فوج اور عدلیہ سے محاذ آرائی کے غلط مشورے دیے تھے مگر وہ اور مسلم لیگ (ن) کا ہم خیال گروہ یہ ضرور چاہتے ہیں کہ نااہل قرار دیے گئے وزیرِ اعظم نواز شریف حالات کو دیکھتے ہوئے اپنی پالیسی میں تبدیلی لائیں۔

پارٹی کے اہم ذرائع کے مطابق شہباز شریف کے نواز شریف کے کچھ 'مشیروں' کے خلاف دیا جانے والا سخت بیان وفاقی وزیرِ داخلہ احسن اقبال کی جانب سے اسلام آباد میں احتساب عدالت کے باہر رینجرز کی تعیناتی کے خلاف سخت ردِ عمل کے بعد سامنے آیا، 3 اکتوبر کو بدعنوانی کے تین مقدمات میں نواز شریف کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر رینجرز نے احسن اقبال اور دیگر وزراء کو عدالت میں پیش ہونے سے روک دیا تھا۔

شہباز شریف کے ایک قریبی لیگی رہنما نے ڈان کو بتایا کہ ’نام لینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، پارٹی میں ہر کوئی، یہاں تک کہ باہر کے لوگ بھی جانتے ہیں کہ عدلیہ اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لینے کے لیے نواز شریف کو کون اکسا رہا ہے، پارٹی میں واضح طور پر دو گروہ ہیں، اس میں سے ایک ریاستی اداروں کے ساتھ ٹکراؤ چاہتا ہے جبکہ دوسرا گروہ ٹکراؤ کی کیفیت کے بجائے امن چاہتا ہے اور اس گروہ کی قیادت واضح طور پر شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کر رہے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ جب سے 28 جولائی کو پاناما پیپرز کیس میں نواز شریف کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا ہے، اس وقت سے شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی اہمیت اور ضرورت پر زور دے رہے ہیں، تاہم وہ وزیرِ داخلہ اور پنجاب رینجرز کے درمیان ہونے والے جھگڑے، اور احسن اقبال کے معاملات کو فوج کی اعلیٰ قیادت تک لے جانے اور ان کی شکایت کا ازالہ نہ ہونے کی صورت میں مستعفی ہونے کی دھمکی سے آخر کار مایوسی کا شکار ہوگئے۔

لیگی رہنما کے مطابق ’مسلم لیگ (ن) کے وہ رہنما جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت چاہتے ہیں، اس واقعے کو حکومت اور فوج کے درمیان تناؤ میں اضافے اور تعلقات کی معمول کی طرف واپسی کی کوششوں کو دھچکے کے طور پر دیکھتے ہیں’۔

اس ہفتے کی ابتداء میں مسلم لیگ (ن) کی جنرل کونسل کے اجلاس میں شہباز شریف نے ان کے بڑے بھائی کے مشیروں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کو مشورہ دیا تھا کہ ’مراعات اور عہدوں کے لیے گمراہ کرنے والوں کے بجائے‘ انہیں جنرل کونسل کے ارکان کی بات سننی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف کو مستقل،شاہد خاقان کو عبوری وزیراعظم بنانے کا اعلان

ذرائع کے مطابق پارٹی کے اندر کئی لوگوں نے سمجھا کہ شہباز شریف کی مذکورہ تجاویز براہِ راست مریم نواز کے بارے میں ہیں جنہوں نے اپنے والد کو سخت حالات میں ڈٹے رہنے کا مشورہ دیا ہے۔

پنجاب حکومت کے ترجمان ملک احمد خان اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ شہباز شریف اداروں کے درمیان تصادم نہیں چاہتے، ڈان سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’سب کو ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کی حدود میں دخل نہیں دینا چاہیے‘۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ان لوگوں کے نام بتانا چاہیں گے جن کی جانب وزیرِ اعلیٰ نے اپنی تقریر میں اشارہ کیا تھا، جس پر ان کا کہنا تھا کہ ’ان مشیروں کے نام لینے کا کوئی فائدہ نہیں، ہمیں تند و تیز تبصرے کر کے حالات مزید نہیں بگاڑنے چاہیں‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سابق وزیرِ اعظم کو شفاف ٹرائل کا موقع ملنا چاہیے تھا۔

دوسرے نکتہءِ نظر پر روشنی ڈالتے ہوئے نواز شریف کے ایک قریبی ساتھی نے ڈان کو بتایا کہ قبل ازیں چوہدری نثار علی خان نے تصادم سے بچنے اور مفاہمت کی پالیسی اپنانے پر زور دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کہانی یہاں سے شروع نہیں ہوتی، مجھے شہباز شریف کو بتانے دیں کہ یہ کہانی ان کے ایک قریبی ساتھی کی جنرل (ر) مشرف کو چھوڑ دینے، بیرونِ ملک جانے میں ان کی مدد کرنے، اور دیگر معاملات، مثلاً ایک اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی تجویز سے شروع ہوتی ہے، شہباز اور نثار سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں کیوں کہ یہ سارے واقعات مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے چار سالوں میں ہی پیش آئے‘۔

یہ بھی پڑھیں: ’نواز شریف ۔ چوہدری نثار کے راستے ابھی جدا نہیں ہوئے‘

انہوں نے کہا کہ ’چوں کہ نواز شریف کو نااہلی کے باعث دھچکا لگا ہے، اس لیے وہ اس موقع پر اپنے چھوٹے بھائی سے اس طرح کے مشورے لینے کے موڈ میں نہیں، جب سول ملٹری تعلقات میں بہتری کی کوئی حقیقی امید ہوگی تب وہ شاید شہباز شریف کے پیغام پر غور کریں گے‘۔

ایک اور نکتہءِ نظر یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں اس موقع پر اختلاف کی علامات ایسی پارٹی کے لیے اچھا شگون نہیں ہیں جو پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے۔


یہ خبر 6 اکتوبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں