اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پاناما لیکس پر درخواستوں کی سماعت مکمل ہوگئی جبکہ جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں قائم 5 رکنی لارجر بنچ نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔

جسٹس آصف کھوسہ کے مطابق فیصلے کا کوئی شارٹ آرڈر جاری نہیں ہوگا، بلکہ تفصیلی فیصلہ ہی جاری کیا جائے گا۔

جسٹس آصف کھوسہ کا مزید کہنا تھا کہ کیس کا فیصلہ مناسب وقت پر سنایا جائے گا اور 20 سال کے بعد بھی لوگ کہیں گے کہ یہ فیصلہ قانون کے عین مطابق تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر 20 کروڑ لوگ ناخوش بھی ہوتے ہیں تو ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں، صرف قانون کے مطابق فیصلہ کریں گے۔

جسٹس شیخ عظمت کا کہنا تھا کہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے قانون کے مطابق کریں گے، جس نے بھی شور مچانا ہے وہ مچاتا رہے۔

آج ہونے والی میں سماعت میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل نعیم بخاری نے سینئر ججز پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ کے سامنے اپنے جوابی دلائل کا سلسلہ جاری رکھا۔

سماعت کے دوران ملک میں جاری امن و امان کی مخدوش صورتحال کے باعث کمرہ عدالت میں بھی سیکورٹی اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ نظر آیا۔

تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے ایک بار پھر گلف سٹیل ملز کے واجبات کا نکتہ اٹھایا، جس پر جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ جو بات پہلے کر چکے ہیں اسے دہرا کر وقت ضائع نہ کریں۔

وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ شریف خاندان کی جانب سے دوران سماعت سہ فریقی معاہدہ پیش کیا گیا تھا، تاہم گلف سٹیل کے واجبات سے متعلق کوئی وضاحت نہیں دی گئی، جبکہ گلف سٹیل ملز کے واجبات 63 ملین درہم سے زیادہ تھے۔

جس پر جسٹس اعجاز افضل کا نعیم بخاری کو کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی درخواست میں بھی گلف سٹیل کے واجبات سے متعلق کوئی بات شامل نہیں اور ابتدائی دلائل میں انہوں نے بھی ایسی کوئی بات نہیں کی۔

نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ مریم نواز کی دستخط والی دستاویز انہوں نے تیار نہیں کی, جس پر شیخ عظمت سعید نے جواب دیا کہ آپ مریم نواز کے دستخط والی دستاویز کو درست کہتے ہیں جبکہ شریف فیملی اس دستاویز کو جعلی قرار دیتی ہے۔

جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ عدالت میں دستخط پر اعتراض ہو تو ماہرین کی رائے لی جاتی ہے جبکہ ماہرین عدالت میں بیان دیں تو ان کی رائے کو درست تصور کیا جاتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ آپ ہمیں خصوصی یا احتساب عدالت سمجھ کر فیصلہ لینا چاہتے ہیں، متنازع دستاویز کو چهان بین کے بغیر کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے؟

دوران سماعت جسٹس شیخ عظمت نے اپنی طبیعت کی ناسازی کا ذکر بھی کیا اور ہدایت کی آج انہیں زیادہ تنگ نہ کیا جائے۔

سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ کے سربراہ جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ دونوں فریقین کی دستاویزات کا ایک ہی پیمانے پر جائزہ لیں گے اور دونوں فریقین کی دستاویزات ہی تصدیق شدہ ذرائع سے نہیں آئیں۔

وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے ایمانداری کا مظاہرہ نہیں کیا، اور موزیک فرانزیکا کو کوئی قانونی نوٹس نہیں بھجوایا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ گیلانی کیس کی طرح اس کیس میں بھی عدالت سے ڈیکلریشن مانگ رہے ہیں۔

اپنے جوابی دلائل میں نعیم بخاری نے شریف خاندان کی جانب سے بطور شواہد پیش کیے گئے قطری خطوط اور قطری سرمایہ کاری پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ سالہا سال تک شریف خاندان کی جانب سے کبھی قطری مراسم کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس:'اگر ادارے کام کرتے تو کیس سپریم کورٹ نہ آتا'

نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ قطری خاندان کو ایل این جی کو ٹھیکہ دینے کی خبر بھی انہوں نے اخبار میں پڑھی۔

جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ قطری ٹھیکے والی بات مفادات کے ٹکراؤ کی جانب جاتی ہے جبکہ ہمارے سامنے ایل این جی کے ٹھیکے کا معاملہ نہیں۔

نعیم بخاری کی جانب سے اس سوال پر کہ کیا دنیا میں کسی نے پاناما لیکس کو چیلنج کیا جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ لندن عدالت میں آبزرویشن بیان حلفی کے بنیاد پر دی گئی۔

وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ قطری شہزادے نے کہہ دیا کہ قرض کی رقم اس نے ادا کی لیکن اتنی بڑی رقم بینک کے علاوہ کیسے منتقل ہوئی؟

نعیم بخاری کا مزید کہنا تھا کہ 1980 سے 2004 تک قطری شیخ بینک کا کردار ادا کرتے رہے، اور سرمایہ کاری پر منافع اور سود بھی بنتا گیا۔

جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ دستاویزات پر نہ دستخط ہے اور نہ کوئی تاریخ جبکہ ادائیگی کس سال میں کی گئی وہ بھی درج نہیں، اگر عدالت غیر تصدیق شدہ دستاویزات مسترد کرنا شروع کرتی ہے تو 99.99 فیصد کاغذات فارغ ہو جائیں گے اور ہم واپس پرانی سطح پر آجائیں گے۔

جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ عدالت ٹرائل کورٹ نہیں جو یہ کام کرے، جس پر نعیم بخاری نے یوسف رضا کیس کا حوالہ دہراتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں عدالت ایسا کرچکی ہے۔

اس موقع پر جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ گیلانی کیس میں عدالت نے توہین عدالت کی درخواست پر فیصلہ سنایا تھا۔

نعیم بخاری نے کہا کہ یہ کیس بھی وزیراعظم کے ان اثاثوں کا مقدمہ ہے جو ظاہر نہیں کیے گئے۔

جسٹس اعجاز افضل نے پی ٹی آئی ثبوت پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ کیا ایسے دستاویزات کو ثبوت مانا جا سکتا ہے؟ کیا ہم قانون سے بالاتر ہو کر کام کریں؟

ان کا کہنا تھا کہ عدالت اپنے فیصلوں میں بہت سے قوانین وضع کر چکی ہے اور عدالت نے ہمیشہ غیر متنازع حقائق پر فیصلے سنائے ہیں۔

جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ عدالت بنیادی حقوق کا معاملہ سن رہی ہے، اور یہ مقدمہ ٹرائل کی نوعیت کا نہیں۔

جسٹس اعجاز افضل نے وکیل پی ٹی آئی سے سوال کیا کہ کیا وہ مفاد عامہ کے مقدمہ میں قانونی تقاضوں کو تبدیل کر دیں؟

لندن فلیٹس کی سرمایہ کاری پر بات کرتے ہوئے جسٹس اصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ قطری خط کے مطابق 8 ملین ڈالرز الثانی خاندان نے ادا کیے۔

نعیم بخاری کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ 1980 سے 1999 تک الثانی خاندان نے سرمایی کاری کے نفع کا ایک پیسہ نہیں دیا اور 1999 کے بعد سے پیسوں کی ادائیگی شروع ہوئی اور یہ لین دین بھی بینک کے ذریعے نہیں ہوئی۔

وزیر اعظم کی تقاریر پر بات کرتے ہوئے وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم 5 اپریل کو قوم سے کیے گئے خطاب میں صادق اور امین نہیں تهے. نہ ہی قومی اسمبلی سے کیے گئے خطاب میں انہوں نے سچ بولا، وزیر اعظم گلف سٹیل فیکٹری کے حوالے سے غلط بیانی کے مرتکب ہوئے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم نے کبهی قطری فیملی سے تعلقات کا اظہار نہیں کیا اور وزیراعظم کی بیٹی لندن فلیٹس کی مالک نکلیں، اگر پاناما پیپر غلط ہے تو وزیراعظم نے انہیں نوٹس کیوں نہیں بهیجا۔

'عدالت نے دورانِ کارروائی 371 سوالات پوچھے'

نعیم بخاری کے دلائل کے بعد شیخ رشید نے اپنے جوابی دلائل کا سلسلہ شروع کیا۔

شیخ عظمت سعید کی صحتیابی کو اللہ کا احسان سمجھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اتنے تسلسل سے نہ وہ کبھی سکول گئے نہ کالج جتنی باقاعدگی سے جسٹس اکیڈمی (عدالت) آتے ہیں۔

عدالتی کارروائی پر بات کرتے ہوئے عوامی مسلم لیگ کے رہنما شیخ رشید کا کہنا تھا عدالت نے دوران کارروائی کل 371 سوالات پوچھے جن میں سے سب سے زیادہ شیخ عظمت صاحب کے تھے، مگر ان سوالات کے جواب نہ ملنے پر جج صاحب کا دل زخمی ہوا۔

جوابی دلائل کا آغاز کرتے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے کہا تھا کرپشن کرنے والے اپنے نام پر کمپنیاں اور اثاثے نہیں رکھتے، تو پھر دبئی فیکٹری کب اور کیسے لگی،اور پیسہ کیسے باہر گیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم کی جانب سے تمام دستاویزات موجود ہونے کا دعویٰ بھی کیا گیا تھا، عدالت 20 سے زائد افراد کو اثاثے چھپانے پر نااہل قرار دے چکی ہے۔

مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے شیخ رشید کا کہنا تھا کہ عدالت مختلف فیصلوں میں صادق اور امین کی تعریف بیان کرچکی ہے اور میرا کیس پہلے دن سے صادق اور امین کا ہے۔

اس موقع پر شیخ رشید نے جعلی ڈگری اور دوہری شہریت مقدمات کی فہرست بھی عدالت کو پیش کی۔

اپنے روایتی انداز گفتگو کو برقرار رکھتے ہوئے شیخ رشید نے عدالت کو بتایا کہ اگر وہ افسانہ بناتے تو شاید اس سے بہتر بنالیتے۔

جس پر جسٹس آصف کھوسہ نے ان سے سوال کیا کہ کیا آپ کو افسانہ بنانے کا تجربہ ہے؟

شیخ رشید کا مزید کہنا تھا کہ عدالت نے انصاف کے لیے ہمہ جہتی فیصلہ کرنا ہے جس پر جسٹس آصف کھوسہ نے جواب دیا کہ انصاف اب صرف پسند کا فیصلہ ہو گیا ہے اور اگر فیصلہ مرضی کا نہ ہو تو ججز پر رشوت اور سفارشی ہونے کا الزام لگا دیا جاتا ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جج نا اہل ہیں۔

جسٹس آصف کھوسہ کے مطابق اور اگر فیصلہ حق میں آجائے تو کہا جاتا ہے کہ ان سے اچھا منصف کوئی نہیں۔

شیخ رشید نے مزید کہا کہ یہ تاریخی وقت ہے، اور اب کرپشن کے خلاف سزا نہ ہوئی تو ملک خانہ جنگی کی جانب بڑھے گا۔

نواز شریف کے خطاب پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کا بیان اگر اسمبلی کی کارروائی ہو تو ہی انہیں استحقاق حاصل ہے، مگر ذاتی وضاحت استحقاق کے زمرے میں نہیں آتی۔

جس پر عدالت نے کہا کہ یہ کہنا مشکل ہوگا کہ تقریر کارروائی کا حصہ نہیں تھی، تقریر کو اسمبلی کارروائی کا حصہ دکھایا گیا تھا۔

شیخ رشید نے کہا کہ منی لانڈرنگ اور کرپشن پر استثنیٰ نہیں ہوتا، ایک صدر نے کہا تھا میرا کوئی کچھ نہیں کر سکتا، مگر اقتدار ختم ہونے کے بعد ان کے خلاف بھی مقدمہ ہوا۔

شیخ رشید کا یہ بھی کہنا تھا کہ مفاد عامہ کی درخواست میں سپریم کورٹ وہ ریلیف بھی دے سکتی ہے جو نہیں مانگا گیا، کیس عدالت کو سمجھ آ چکا ہے ہم صرف وقت ضائع کر رہے ہیں۔

شیخ رشید کا مزید کہنا تھا کہ عدالت نے چودھری نثار کی درخواست میں چیئرمین نیب کو اڑایا جس پر جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ ہم کسی کو اڑاتے نہیں، صرف فیصلہ کرتے ہیں، اڑادیا جیس لفظ سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے جیسے کسی کا کوئی ایجنڈا ہو۔

جس پر شیخ رشید کا کہنا تھا کہ 'ہمارے شہر میں ایسے ہی لفظ استعمال ہوتے ہیں کیونکہ میرے شہر میں لوگ قانون کو نہیں فیصلے کو زیادہ سمجھتے ہیں'۔

جس پر جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا لپ جس نے آپ کو یہ لکھ کردیا ہے، پتہ نہیں اس نے عدالتی فیصلے پڑھے بھی ہیں یا نہیں۔

شیخ رشید نے جواب دیا کہ ڈاؤن ٹاؤن کے منشی تو ایسے ہی لکھ کر دیتے ہیں، ساتھ انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ رات کو تنہائی میں شریف فیملی کی دستاویزات کو دیکھتے ہیں اور انہیں تمام دستاویزات جعلی لگتی ہیں۔

قطری سرمایہ کاری پر بات کرتے ہوئے شیخ رشید کا کہنا تھا کہ قطری خاندان کی آمد پہلی بار نہیں ہوئی، ہیلی کاپٹر کیس میں بھی قطری خاندان کا معاملہ سامنے آچکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ طارق شفیع نے بھی اپنا پہلا بیان بہتر بنایا ہے اور تمام ادارے اور وزیراعظم ہاؤس روزانہ اپنا کیس بہتر کرتے ہیں۔

جس پر جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ سب لوگ اپنے کیس کی تیاری کرکے آتے ہیں۔

اس موقع پر وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز کے وکیل شاید حامد کا کہنا تھا کہ نعیم بخاری چالیس سال سے میرے دوست ہیں اور میری کسی بات سے ان کی تضحیک ہوئی تو میں معذرت خواہ ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہاف ڈیسنِٹ لا فرم کے ریمارکس پر نعیم بخاری کی دل آزاری ہوئی جس ر وہ معذرت خواہ ہیں، جس کے بعد شاہد حامد نے نعیم بخاری سے ہاتھ ملا کر معذرت کر لی۔

شیخ رشید کا کہنا تھا کہ اگر قطری خط کو نکال دیا جائے تو ساری عمارت زمین بوس ہو جاتی ہے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ ہر جگہ ذاتی بندوں کو تعینات کیا جاتا ہے، اور حکومت نے ساڑھے تین سال میں تمام افراد کو وفاداری پر تعینات کیا۔

شیخ رشید کا کہنا تھا کہ شریف خاندان کے وکلاء نے عدالت کے اس اہم سوال کا جواب نہیں دیا کہ قطری سرمایہ کاری کتنی ہوئی؟

ان کے مطابق پورٹ قاسم کا 2 بلین کا ٹھیکہ قطری شہزادے حماد بن جاسم کو دیا گیا۔

جس پر عدالت نے ان سے دریافت کیا کہ آپ کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ حماد بن جاسم کو ٹھیکہ دیا گیا؟

شیخ رشید کا کہنا تھا کہ وہ 7بار وزیر رہ چکے ہیں اور عدالت سے غلط بیانی نہیں کریں گے۔

جس پر جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ شیخ صاحب آپ نے دونوں مواقع پر عدالت کی بہترین معاونت کی ہے۔

جماعت اسلامی کا جواب الجواب

دوسری جماعت اسلامی نے تحریری صورت میں اپنا جواب الجواب عدالت میں جمع کروا دیا۔

جواب میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ یہ طے ہو چکا ہے کہ وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں غلط بیانی کی۔

جواب میں عدالت سے مطالبہ کیا گیا کہ قطری شہزادے کو عدالت میں طلب کیا جائے اور اگر وہ پیش نہیں ہوتا تو اس کا خط مسترد کیا جائے۔

جماعت اسلامی کے جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ اسمبلی میں ذاتی معاملے کی وضاحت کرنے پر وزیر اعظم آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے لہذا اس بنیاد پر نااہل قرار دیا جائے۔

گذشتہ سماعت

یاد رہے کہ گزشتہ روز سماعت کے دوران اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی تھی کہ حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کو پاناما لیکس کے معاملے سے منسلک نہ کیا جائے، کیونکہ دونوں کی نوعیت مختلف ہے۔

سماعت کے دوران وزیراعظم کی نااہلی کا معاملہ زیر بحث آنے پرجسٹس کھوسیہ کا کہنا کہ عدالت نے 3 نومبر 2016 کو درخواستیں قابل سماعت قرار دی تھیں، عدالت عوامی مفاد کا معاملہ ہونے کا فیصلہ پہلے ہی کر چکی ہے۔

جسٹس عظمت سعید نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ 'آپ اس حوالے سے معاونت کریں کہ عدالت کس حد تک جا سکتی ہے'۔

جس پر اشتر اوصاف نے بتایا تھا کہ آئین کے تحت نا اہلی کے لیے ریفرنس اسپیکر کو بھیجا جا سکتا ہے، جبکہ اسپیکر سے فیصلہ نہ ہونے کی صورت میں ہی کسی اور فورم پر جا سکتا ہے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں بننے والا پانچ رکنی نیا لارجر بینچ 4 جنوری سے پاناما کیس پر درخواستوں کی سماعت کررہا ہے، بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن شامل ہیں۔

31 جنوری کو ہونے والی سماعت کے بعد لارجر بینچ کے رکن جسٹس شیخ عظمت سعید کو دل کی تکلیف کے باعث سماعت ملتوی کردی گئی تھی جس کا دوبارہ سے آغاز پندرہ روز بعد (15 فروری) سے ہوا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں