اسلام آباد: ملک میں مسلسل بڑھتے ہوئے گردشی قرضوں میں مزید 5 سو 66 ارب روپے کا اضافہ ہوگیا جس کے ساتھ ملک کے گردشی قرضے 10 کھرب 66 ارب روہے ہوگئے۔

سینیٹ میں وزارتِ توانائی کی زیرِ صدارت ہونے والے اجلاس میں گردشی قرضوں کی رپورٹ پیش کی گئی، اس موقع پر پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوس) نے دعویٰ کیا کہ ایک سو ارب روپے سے زائد کے گردشی قرضہ میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے سیلز ٹیکس کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے اضافہ ہوا ہے۔

ڈسکوس نے شکایت کی کہ حکومت کی جانب سے 2.1 فیصد مارجن دیے جانے کے باوجود انہیں مکمل ٹرن اوور پر جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) اور سبسڈی ادا کرنا پڑی۔

انہوں نے کہا کہ سابق مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ نے بارہا اس مسئلے پر بات کی لیکن سال 2013 سے ہم اضافی ٹیکس دے رہے ہیں۔

مزید پڑھیں : ملک میں گردشی قرضے 922 ارب روپے سے تجاوز کرگئے

مزید یہ بھی بتا یا گیا کہ پاور ڈویژن نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بھی اس مسئلے پر راضی کرنے کی کوشش کی تھی، اس مسلسل بے قاعدگی کو ختم کرنے کے لیے فنانس بل کے ساتھ ایک سمری بھی ارسال کی گئی تھی۔

کمیٹی نے ایف بی آر، نیپر اور وزراتِ خزانہ کو مذکورہ مسئلے پر سمری کے ساتھ اگلی ملاقات میں طلب کیا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر شبلی فراز کی زیرِ صدرات اجلاس میں وزارت توانائی نے بتایا کہ چند ماہ میں گردشی قرضوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) حکومت کی جانب سے اکتوبر 2017 میں بجلی چوری کرنے والے علاقوں میں بھی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

وزارت توانائی اور اس سے منسلک کمپنیاں کاروباری اعتبار سے اس ناقابل قبول فیصلے پر کیوں آمادہ ہوئیں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے پاور ڈویژن کے جوائنٹ سیکریٹری زرخم اسحٰق خان نے بتایا کہ یہ معاملات اس وقت موجود حکومت کو بتائے گئے تھے تاہم کابینہ کے فیصلے پر عمل کیا گیا تھا۔

پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) کے حکام کا کہنا تھا کہ پچھلے سال کے ابتدائی چار ماہ میں کُل خسارہ 4 ارب تھا لیکن کابینہ کی جانب سے ایسے علاقے جہاں ریکوری نہ ہونے کے برابر ہے، وہاں بھی بجلی پہنچانے کا فیصلہ منظور کیا جس کے بعد سال کے آخر میں یہ یہ خسارہ 40 ارب تک پہنچ گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پیسکو کی ترسیل اور تقسیم کا خسارہ 38 فیصد ہے جبکہ نیپرا کے ٹیرف میں یہ 15.7 فیصد ہے۔ جس کے نتیجے میں بقایا آمدنی سے انتظامی اور دیگر اخراجات نکالنے کے بعد بنیادی انفرا اسٹرکچر پر خرچ کرنے کے لیے کوئی فنڈز نہیں بچے تھے۔

یہ بھی پڑھیں : گردشی قرضے دوبارہ 400 ارب روپے سے تجاوز کرگئے

تاہم حیدرآباد الیکٹرک پاور کمپنی (حیسکو) کے نمائندوں نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ چند سالوں میں انہوں نے اپنے گرڈ اسٹیشن میں سرمایہ کاری میں اضافہ کیا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ خسارے کی اہم وجوہات میں بجلی چوری اور کم ریکوری کے علاوہ حیسکو پر موجود قرضوں پر سود بھی شامل ہے جبکہ بدین اور ٹھٹھہ میں سیاسی مداخلت اور غربت بھی کم ریکوری بھی چند وجوہات میں سے ایک تھی۔

زرغون اسحٰق خان نے بتایا کہ آر ایل این جی بھی کا انتظام بھی صارفین کے اخراجات پر کیا گیا کیونکہ پاور سیکٹر 66 فیصد آر ایل این جی استعمال کا خواہاں تھا، ورنہ کمپنیوں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔

آر ایل این جی کی لاگت صارفین پر ڈالنے سے متعلق کمیٹی کے سوال پر پاور ڈویژن حکام نے جواب دیا کہ سردی میں بجلی کی ضرورت میں کمی آئی جس کے ساتھ ہی آر ایل این جی پلانٹ فعال ہوجائیں گے اور ان کا تجربہ کیے جانے کا امکان ہے۔

کمیٹی کا یہ بھی کہنا تھا کہ بجلی کی پالیسی کا پہلا مسودہ مشترکہ مفادات کونسل میں پیش ہونے سے پہلے اسٹیک ہولڈرز (صوبوں) سے مشاورت کے لیے تیار ہے۔

زرغون اسحٰق خان نے بتایا کہ حکومت نے جام شورو اور مظفر گڑھ پاور پلانٹس کو فعال کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے جو آر ایل این جی کے متبادل ہوں گے، جبکہ فرنس آئل پلانٹس بھی آر ایل این جی پر چلائے جاسکتے ہیں کیونکہ فرنس آئل کی قیمت زیادہ ہے۔

ایڈیشنل سیکریٹری پاور ڈویژن وسیم مختار نے کمیٹی کو ملک میں توانائی کے شعبے کی مجموعی صورتحال سے آگاہ کیا اورسرکلر قرضوں کو کم کرنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کے حوالے سے بھی کمیٹی کے سامنے تفصیلات پیش کیں۔

این ٹی ڈی سی کے مینیجنگ ڈائریکٹر ظفرعباس کا کہنا تھا کہ توانائی کی منتقلی کے سلسلے میں کوئی بھی نیا اقدام بڑی لاگت کی وجہ سے اٹھانا ممکن نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ توانائی کی بڑھتی ہوئی مانگ کو دیکھتے ہوئے ٹرانسمیشن لائنوں کو اپ گریڈ کرنے کے لیے ایک منصوبہ بنایا گیا ہے۔

قائمہ کمیٹی برائے توانائی کے سربراہ شبلی فراز نے پاور ڈویژن کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ بلا تفریق تمام نادہندگان کی رپورٹ پیش کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ خصوصی کمیٹی کا مقصد گرشی قرضوں کی لعنت سے نمٹنا ہے۔


یہ خبر 2 اگست 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں