اسلام آباد: پانامہ لیکس کے ہنگامےکے بعد قومی احتساب بیورو (نیب)کی جانب سے’ دبئی لیکس‘ جاری ہونے کا امکان ہے جس میں پاکستانیوں کی دبئی میں موجود 10 کھرب روپے سے زائد مالیت کی جائیدادوں کا انکشاف کیا جائے گا۔

انسداِد بدعنوانی کے ادارے کی شکایت موصول ہونے پر نیب کے چیئرمین جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں ہونے والے ایگزیکٹو بورڈ اجلاس (ای بی ایم) میں پاکستانیوں کی دبئی میں موجود جائیدادیں افشا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

درخواست گزار کے مطابق 7 ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کی متحدہ عرب امارات میں 10 کھرب روپے سے زیادہ مالیت کی جائیدادیں ہیں، جس میں سابق اعلیٰ فوجی افسران، سیاستدان، سرکاری عہدیدار، میڈیا ہاؤسز کے مالکان اور صحافی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نیب نے سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے خلاف ریفرنس دائر کردیا

اس حوالے سے میڈیا میں گردش کرتی اطلاعات کے مطابق ’دبئی لیکس‘ نامی فہرست متحدہ عرب امارات کے حکام نے 2015 میں پاکستان کو فراہم کی تھی۔

تاہم پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ملکی دولت واپس لانے اور آفشور اثاثوں کے مالکان کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لانے کے لیے کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔

اس حوالے سے نیب ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ ادارہ دبئی میں موجود پاکستانیوں کی جائیدادوں سے متعلق مزید تفصیلات حاصل کرنے کے لیے دفتر خارجہ سے مدد لے گا۔

مزید پڑھیں: شہباز شریف، چوہدری برادران نیب میں طلب

ان کا کہنا تھا کہ نیب باہمی قانونی تعاون کے معاہدے کے تحت متحدہ عرب امارات کے حکام سے بھی خلیجی ممالک میں پاکستانیوں کی جائیداوں کی معلومات حاصل کرنے میں مدد لے سکتا ہے۔

واضح رہے کہ حکومت پاکستان کی جانب سے اس سے قبل متعدد مرتبہ دبئی کی حکومت سے ریئل اسٹیٹ میں پاکستانیوں کی سرمایہ کاری سے متعلق معلومات حاصل کرنے کی درخواست کرچکی ہے۔

لیکن دبئی انتظامیہ یہ معلومات فراہم کرنے سے گریزاں ہے، بظاہر اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے دبئی حکومت سرمایہ کاروں کے اعتماد کو نہیں کھونا چاہتی۔

یہ بھی پڑھیں: پیپلز پارٹی کا نیب سے تحریک انصاف کے رہنماؤں کے خلاف تحقیقات تیز کرنے کا مطالبہ

اس کے ساتھ ای بی ایم میں سابق وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد کے خلاف مبینہ طور پر اختیارات کے ناجائز استعمال، بدعنوانی اور ملکی خزانے کو نقصان بہنچانےکے الزام میں تحقیقات کی بھی منظوری دی گئی۔

دوسری جانب نیب نے سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار ، سابق وزیر اطلاعات انوشہ رحمٰن ، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے سابق چیئرمین ڈاکٹر اسمٰعیل شاہ اور دیگر کے خلاف مبینہ طو رپر نیکسٹ جنریشن موبائل سروس(این جی ایم ایس) کے ٹھیکے دینے میں ملوث ہونے پر تحقیقات کی بھی منظوری دی گئی۔

علاوہ ازیں نیب نے نیلم جہلم منصوبے کی انتظامیہ کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال، انسداد بدعنوانی اسٹیبلشمنٹ پنجاب کے سابق ڈائریکٹر مظفر علی رانجھا کے خلاف فرائض کی انجام دہی میں نیب سے تعاون نہ کرنے پر، سول ایوی ایشن حکام کے خلاف من پسند کمپنیوں سے طیاروں کے آلات کی خریداری پر بھی تحقیقات کا فیصلہ کیا۔

مزید پڑھیں: نیب کا انتخابات سے قبل امیدواروں کو گرفتار نہ کرنے کا فیصلہ

اجلاس میں نادرن پاور پروجیکٹ گجرانوالہ کے عہدیداروں کے خلاف بھی بدعنوانی کے الزامات کے تحت تحقیقات کی منظوری دی گئی۔

جبکہ اسلام آباد میں او پی ایف ہاؤسنگ سوسائٹی کے قیام میں کرپشن کے الزام میں اوورسیز پاکستانی فاؤنڈیشن (او پی ایف)، زمین فراہم کرنے والے ، ٹھیکیداروں اور دیگر کے خلاف تفتیش کا فیصلہ بھی کیا گیا۔

بحریہ ٹاؤن معاملہ

قومی احتساب بیور و کے ایگزیکٹو بورڈ میٹنگ میں بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ اور دیگر کے خلاف ’نیو مری پروجیکٹ‘ نامی منصوبے کے لیے مبینہ طور پر لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کرنے کے الزامات کی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا۔

اس کے ساتھ نیب نے سندھ حکومت کے افسر ثاقب احمد سومرو کے خلاف بدعنوانی کے الزامات پر بھی تفتیش کا فیصلہ کیا۔


یہ خبر 4 گست 2018 کو ڈان اخبا رمیں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں