25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں جہاں کئی خرابیاں تھیں وہیں محدود مگر نتیجہ خیز کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں۔

ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ دیر، کوہستان اور وزیرستان میں خواتین ووٹ دینے پہلی بار گھروں سے باہر نکلیں اور یوں انہوں نے واضح کیا کہ انہیں کئی نسلوں سے ووٹ دینے کے حق سے محروم رکھا گیا ہے۔

حالانکہ خواتین ووٹرز کی رجسٹریشن اور ٹرن آؤٹ کی شرح اتنی نہیں جتنی ہونی چاہیے، تاہم الیکشن کمیشن پاکستان کی جانب سے الیکشن ایکٹ 2017ء میں درج خواتین ووٹرز کی ایک مخصوص تعداد کو لازم قرار دے کر خواتین ووٹرز کی رجسٹریشن اور ٹرن آؤٹ کی شرح میں اضافہ کرنے کی کوششیں رنگ لائی ہیں۔

حتیٰ کہ کسی بھی حلقے میں کل ووٹرز میں سے 10 فیصد خواتین ووٹرز کا حصہ لینا لازمی قرار دیا گیا ہے مگر پھر بھی کچھ علاقوں میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ اس سے بھی کم سامنے آیا۔ شانگلہ کے حلقہ این اے 10 میں کل 1 لاکھ 28 ہزار 302 ووٹ (بشمول مسترد شدہ ووٹوں کے بھی، البتہ فارم 47 میں یہ نہیں لکھا ہوتا کہ کتنے مردوں کے ووٹ ہیں اور کتنے خواتین کے ووٹ ہیں) میں سے 12 ہزار 663 یا 9.87 فیصد ووٹ خواتین نے ڈالے تھے۔

شمالی وزیرستان کے حلقہ این اے 48 میں کل 63 ہزار 954 ووٹ میں سے ہزار 354 یا 9.94 فیصد خواتین کے ووٹ تھے۔ گزشتہ روز ڈان اخبار میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق، الیکشن کمیشن پاکستان کے ایک ذرائع نے بتایا ہے کہ انہی بنیادوں پر دونوں حلقوں کے انتخابات کو کالعدم قرار دینے کے لیے کمیشن کو خط ارسال کردیا گیا ہے۔

مانا کہ دونوں حلقوں میں مطلوبہ 10 فیصد خواتین ووٹ اور خواتین ووٹرز کی تعداد میں بال جتنا ہی فرق ہے اس کے باوجود بھی الیکشن کمیشن پاکستان نتائج منسوخ کرنے کے حقوق کو استعمال کرنے کے لیے تیار ہے۔ بلاشبہ، لازمی قرار دی گئی شرح بڑی حد تک ناکافی ہے۔

مگر اس سے پہلے کہ ضمنی انتخابات ہوں اور ان کے نتائج کو تسلیم کیا جائے، الیکشن کمیشن پاکستان کو انکوائری کروانی چاہیے جو اس بات کا پتہ لگائے کہ آخر کیا وجوہات تھیں جن کی وجہ سے ٹرن آؤٹ اس قدر کم رہا، اس کے ساتھ ساتھ پولنگ ڈے سے قبل چند امیدواروں (بشمول کامیاب امیدوار) کی جانب سے لگائے گئے ایسے الزامات کی بھی تحقیقات کرے کہ ووٹ ڈالنے کی خواہاں خواتین کو ڈرایا اور دھمکایا گیا، اور پولنگ اسٹیشنز اس قدر دور دراز علاقوں میں قائم کیے گئے تھے جہاں خواتین کے لیے وہاں پہنچنا آسان نہیں تھا۔

الیکشن کمیشن پاکستان کو ان دعوؤں کو سنجیدگی سے لینا چاہیے، اس کے ساتھ اپنی ممکنہ کوتاہیوں کو بھی تسلیم کرنا چاہیے، تا کہ آئندہ ایسا کوئی تجربہ نہ ہوا۔

دوسری جانب، قانون سازوں کو چاہیے کہ وہ شہری حلقوں میں خواتین ووٹرز کے لازمی قرار دی گئی کم از کم ٹرن آؤٹ شرح کو بڑھانے کے لیے ترمیم متعارف کروائیں۔ ایسے قوانین کو دستوری صورت دینے سے خواتین ووٹرز کو برابری کی حیثیت دلوانے کی مہم میں کافی مدد مل سکتی ہے۔

جب بھی حقوق نسواں پر کوئی قانون سازی کی کوشش ہوتی ہے تو تنقید شروع ہوجاتی ہے اور انہیں لپیٹنے کے لیے ابھی بھی اقدامات کیے جانے باقی ہیں، لہٰذا اس سب کو مد نظر رکھتے ہوئے رجعت کے خلاف تحفظ کی فراہمی کو ہر طرح سے ممکن بنانے کے لیے اگر کہا جائے تو اس میں کچھ غلط نہ ہوگا۔


یہ اداریہ ڈان اخبار میں 4 اگست 2018 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں