غزنی کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرلیا، افغان حکام کا دعویٰ

11 اگست 2018
غزنی سے دھواں اٹھتا دکھائی دے رہا ہے — فوٹو: اے ایف پی
غزنی سے دھواں اٹھتا دکھائی دے رہا ہے — فوٹو: اے ایف پی

سیکیورٹی فورسز نے افغانستان کے مشرقی شہر غزنی کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کا دعویٰ کردیا۔

فورسز کو یہ کامیابی طالبان جنگجوؤں کی جانب سے صوبائی دارالحکومت پر چڑھائی کے ایک روز بعد ملی۔

طالبان کے حملے کے بعد امریکی اور افغان فورسز کی جانب سے بھی دہشت گردوں کے خلاف کلیئرنس آپریشن شروع کیا گیا تھا۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'اے ایف پی' کے مطابق افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب دانش نے کہا کہ 'فوج کی تازہ کمک آنے کے بعد اہلکاروں نے حوصلے بلند ہوئے اور انہوں نے غزنی کے شمال میں طالبان جنگجوؤں کو پیچھے دھکیل دیا، جس کے بعد وہ شہر پر کنٹرول حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے۔'

انہوں نے پریس کانفرنس میں غزنی کے حالات کے حوالے سے شکوک و شبہات دور کرتے ہوئے کہا کہ 'صورتحال اب مکمل قابو میں ہے اور شہر کو اب کوئی خطرہ نہیں ہے۔'

افغانستان میں امریکی فوج کے ترجمان نے بھی طالبان کے خلاف جوابی کارروائی کو کلیئرنس آپریشن قرار دیا، جس دوران سیکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان شہر کے کئی مقامات پر جھڑپیں ہوئی۔

لیفٹیننٹ کرنل مارٹِن او ڈونیل نے بتایا کہ 'حقیقت یہی ہے کہ طالبان شہر پر قبضہ کرنے میں ناکام رہے اور ان کی لڑنے کی طاقت افغان و امریکی افواج سے قدرے کم تھی، جس کے باعث انہیں پیچھے دھکیل دیا گیا۔'

یہ بھی پڑھیں: غزنی پر طالبان کی قبضے کی کوشش پر امریکا کا جوابی فضائی حملہ

واضح رہے کہ جمعرات کو رات گئے طالبان جنگجو کئی راستوں سے غزنی میں داخل ہوئے اور میڈیا دفاتر اور مواصلاتی ٹاورز پر حملے کرکے انہیں نقصان پہنچایا، جس کے نتیجے میں جمعہ کی دوپہر تک شہر میں موبائل فون سروس معطل رہی۔

نجیب دانش کی پریس کانفرنس کے بعد بھی غزنی کی ایک رکن پارلیمنٹ نے احتیاط برتنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ 'دونوں طرف سے اب بھی شدید جھڑپیں جاری ہیں۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'طالبان کے تقریباً 150 سے لڑائی میں سیکیورٹی فورسز کے کم از کم 25 اہلکار ہلاک ہوچکے ہیں۔'

نفیسہ اعظمی کا کہنا تھا کہ 'غزنی میں اب بھی شدید لڑائی جاری ہے، جیل پر مختلف جانب سے حملہ کیا گیا ہے اور طالبان قیدیوں کر فرار کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔'

انہوں نے اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ 'غزنی میں خوف کے سائے بڑھ رہے ہیں اور ممکن ہے کہ طالبان رات کے اوقات میں اپنے حملوں میں تیزی لے آئیں۔'

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں