کوئٹہ: بلوچستان کی 11ویں قانون ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس پیر (13 اگست) کو منعقد ہوا جس میں صوبے سے نومنتخب اراکین نے اپنی رکنیت کا حلف اٹھایا۔

اسپیکر بلوچستان اسمبلی راحیلہ حمید درانی کی زیرِ صدارت ہونے والے اجلاس میں نو منتخب اراکین اسمبلی نے حلف اٹھایا اور اپنا حلف نامہ اسپیکر کو جمع کروایا۔

سردار صالح محمد بھوتانی نے ساتویں مرتبہ، جان محمد جمالی اور نوابزادہ طارق مگسی پانچویں مرتبہ، سید احسان شاہ اور عبدالرحمٰن کھیتران نے چوتھی مرتبہ رکن بلوچستان اسمبلی کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔

صوبائی اسمبلی میں میر نصیب اللہ مری سمیت چار ارکان نے پہلی مرتبہ ایم پی اے کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔

مزید پڑھیں: بلوچستان عوامی پارٹی 14 صوبائی نشستوں کے ساتھ پہلے نمبر پر براجمان

اجلاس کے دوران مستونگ اور کوئٹہ میں ہونے والے دہشتگرد حملوں کی مذمت کی گئی اور جاں بحق ہونے والے افراد کے لیے فاتحہ خوانی اور دعائے مغفرت کی گئی۔

ساتویں مرتبہ رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہونے والے مسلم لیگ (ن) کے رہنما نواب ثناء اللہ زہری حلف اٹھانے کے لیے صوبائی اسمبلی نہیں آئے۔

یاد رہے کہ 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں نئی وجود میں آنے والی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) صوبے میں سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے۔

بی اے پی کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ انہیں اسمبلی میں اکثریت حاصل ہوگئی ہے اور وہ صوبے میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جام کمال کو وزیراعلیٰ بلوچستان نامزد کرنے پر بی اے پی میں اختلافات

بی اے پی کو صوبے میں اتحادی حکومت بنانے کے لیے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حمایت کے بعد سادہ اکثریت حاصل ہوگئی تھی۔

بی اے پی کو بلوچستان اسمبلی کی 50 عام نشستوں میں اپنی جماعت کے اراکین سمیت کل 30 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔

بی اے پی کی جانب سے متفقہ طور پر پارٹی سربراہ جام کمال کو نئے وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نامزد کیا گیا تھا۔

جام کمال کو وزیرِ اعلیٰ نامزد کرنے کے بعد پارٹی میں اختلافات سامنے آگئے تھے جنہیں بہت جلد ختم کردیا گیا۔

بلوچستان میں سیاسی اتار چڑھاؤ

یاد رہے کہ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کے ناراض اراکین نے گزشتہ حکومت کے دوران ہی ہم خیال گروپ ترتیب دے دیا تھا اور صوبے سے مسلم لیگ (ن) کی حکمرانی ختم کردی تھی۔

بعدِ ازاں ہم خیال گروپ نے جام کمال کی سربراہی میں بلوچستان عوامی پارٹی کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی جس کے پلیٹ فارم سے 2018 کے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔

25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں بی اے پی صوبے کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری اور صوبائی اسمبلی کی 15 عام نشستوں پر کامیاب ہوگئی۔

صوبے میں متحدہ مجلسِ عمل (ایم ایم اے) اور بلوچستان عوامی پارٹی (بی این پی مینگل) 7، 7 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر تھیں۔

مزید پڑھیں: وفاق، صوبے میں بی اے پی کا پی ٹی آئی سے اتحاد، جام کمال وزیراعلیٰ کے امیدوار

حیرت انگیز طور پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے بھی بلوچستان میں اپنے قدم رکھتے ہوئے 6 نشستیں حاصل کیں۔

دیگر جماعتوں میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے پاس 3، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی عوامی) کے پاس 2، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی (ایچ ڈی پی) کے پاس 2 اور جمہوری وطن پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پاس ایک ایک نشست تھی جبکہ 5 آزاد امیدوار بھی انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے۔

تاہم خواتین کی مخصوص اور اقلیتی نشستوں کے بعد بی اے پی کی نشستوں کی تعداد 20، ایم ایم اے اور بی این پی مینگل کی 10، 10، پی ٹی آئی کی 7 اور اے این پی کی 4 ہوگئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں