اسلام آباد: وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے ) نے سائبر کرائم کے کیسسز سے بہتر طور پرنمٹنے کے لیے خصوصی اختیارات دیے جانے کی خواہش کا اظہار کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایف آئی کی جانب سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں بتایا گیا کہ برقی جرائم کی روک تھام کا قانون( پِریوینشن آف الیکٹرونک کرائم ایکٹ) اس سلسلے میں ان کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتا ہے۔

واضح رہے کہ کابینہ سیکٹیریٹ میں پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی ( پی ٹی اے) کی جانب سے سوشل میڈیا پر پھیلنے والے توہین آمیز تبصروں کے خلاف جرمانہ عائد کرنے پر غور کے لیے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: سائبر کرائم کی تحقیقات: ایف آئی اے کے پاس صرف 10 ماہرین کی موجودگی کا انکشاف

اجلا س میں ایف آئی اے کے شعبہ سائبر کرائم کے ڈائریکٹر انچارج نے بتایا کہ پہلے کے برعکس اب ہمیں کوئی بھی اقدام اٹھانے سے قبل متعلقہ عدالت سے اجازت لینی پڑتی ہے، جو کچھ معاملات میں ٹھیک ہے، لیکن اس سے تحقیقات میں تعطل پیدا ہوتا ہے جبکہ اس پر عمل درآمد میں کافی وقت بھی صرف ہوتا ہے۔

ایف ائی اے حکام نے کمیٹی سے پرزور درخواست کی کہ برقی جرائم کی روک تھام کے قانون (پی ای سی اے) پر نظر ثانی کر کے ترمیم کرکے وفاقی تحقیقاتی ادارے کو مزید اختیارات تفویض کیے جائیں۔

خیال رہے کہ پی ای سی کی تشکیل اور بعد ازاں اس میں کی گئی ترمیم پر ڈیجٹل حقوق کے اداروں کی جانب سے اعتراض کیا گیا تھا کہ مذکورہ قانون فطری طور پر بہت بنیادی حیثیت کاحامل ہے، جس سے اسکی طویل مدتی افادیت پر بھی خدشات کا اظہار کیا گیا۔

مزید پڑھیں: سائبر کرائم ایکٹ کے تحت عدالت نے پہلی سزا سنادی

کمیٹی اجلاس میں ایف آئی اے کی جانب سے بتایا گیا کہ 2012 سے اب تک متنازع اور توہین آمیز مواد کے باعث ہزاروں ویب سائٹس کے یو آر ایل بلاک کیے جاچکے ہیں۔

پیش کی گئی تفصیلات کے مطابق 7 لاکھ 68 ہزار 2 سو 64 یو آر ایل پورنوگرافک مواد، 31 ہزار 9 سو 63 گستاخانہ مواد سے تعلق رکھتے تھے جبکہ 10 ہزار ایک سو 96 پروکسی ویب سایٹس، 4 ہزار 7 سو 99 ویب سائٹس ریاست مخالف، 3 ہزار 7 سو 19 عدلیہ مخلاف، اور تقریباً 1000 کے قریب ویب سائٹس کو فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے اور 850 کو بدنامی کا سبب بننے کے باعث بلاک کیا گیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پی ای سی اے کی مجموعی طور پر 28 دفعات ہیں جس کے تحت چائلڈ پورنوگرافی اور سائبر کرائم سمیت 3 مقدمات میں ضمانت نہیں ہوسکتی جبکہ دیگر 25 جرائم میں ملزم ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سائبر کرائم : آپ کو کیا معلوم ہونا چاہئے

ان کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ شکایات بدنام کیے جانے یا شہرت کو نقصان پہنچانے کی موصول ہوتی ہیں۔

اس پر سینیٹ کمیٹی کے چیئرمین طلحہ محمود نے ایف آئی اے کو اپنی حمایت کا یقین دلاتے ہوئے پی ٹی اے اور ایف آئی اے کو ہدایت کی کہ سائبر کرائم کے قانون کو سخت بنانے کے لیے باقاعدہ طور پر تجاویز پیش کی جائیں۔

سینیٹر طلحہ محمود کا کہنا تھاکہ دونوں اداروں کو اپنے فرائض کی انجام دہی میں مشکلات کا سامنا ہے، چناچہ اگر ضرورت پڑی تو اس معاملے کو قومی اسمبلی اور سینیٹ اجلاس میں بھی زیر غور لایا جائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں