اسلام آباد ہائیکورٹ نے جعلی اکاؤنٹس سے متعلق منی لانڈرنگ کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری کی حفاظتی ضمانت منظور کرلی۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز کراچی کی بینکنگ عدالت نے منی لانڈرنگ کیس میں مفرور سابق صدر آصف علی زرداری سمیت دیگر ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔

اس وارنٹ گرفتاری کے خلاف آصف علی زرداری اپنی صاحبزادی آصفہ بھٹو کے ہمراہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوئے اور اپنی حفاظتی ضمانت سے متعلق درخواست دی۔

درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی، اس دوران انہوں نے سابق صدر اور ان کے وکیل کو چیمبر میں بلایا۔

مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: آصف زرداری کے ’ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری' جاری

بیرسٹر اعتراز احسن کی طرف سے عدالت کے روبرو مؤقف اپنایا کیا گہ ان کے موکل آصف زرداری عدالت میں پیش ہونا چاہتے ہیں، تاہم انہیں گرفتاری کا خدشہ ہے، لہٰذا انہیں حفاظتی ضمانت دی جائے۔

سابق صدر کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے موکل ایف آئی اے کی تحقیقات میں پیش ہونا چاہتے ہیں، جس کے بعد عدالت نے 2 ہفتوں کے لیے ان کی حفاظتی ضمانت منظور کرلی اور انہیں 5 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

اس سے قبل سابق صدر جب اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچے تھے تو ان کے ہمراہ آصفہ بھٹو کے علاوہ شیری رحمٰن بھی موجود تھی۔

عدالت میں پیشی کے موقع پر ایک صحافی کی جانب سے آصف زرداری سے سوال کیا گیا کہ آج نئے وزیر اعظم نے حلف لیا جبکہ سابق صدر عدالتوں میں پیش ہورہے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہا کہ اس طرح تو ہوتا ہے ، اس طرح کے کاموں میں۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز کراچی کی عدالت میں ایف آئی اے کی جانب سے منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات میں شامل نہ ہونے والے افراد سے متعلق رپورٹ پیش کی گئی اور استدعا کی گئی کیس میں مفرور سابق صدر آصف علی زرداری سمیت دیگر ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں، جس پر عدالت نے ان کی استدعا منظور کرلی۔

عدالت کی جانب سے حکم دیا گیا تھا کہ تمام ملزمان کو گرفتار کرکے 4 ستمبر تک عدالت میں پیش کیا جائے۔

تاہم پیپلزپارٹی نے آصف علی زرداری کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے سے متعلق میڈیا رپورٹس کی تردید کی تھی اور سینئر رہنما فرحت اللہ بابر نے ایک جاری بیان میں کہا تھا کہ آصف علی زرداری کے گرفتاری وارنٹ جاری نہیں ہوئے۔

اس سے قبل سپریم کورٹ میں جعلی اکاؤنٹس سے متعلق کیس کی سماعت کے بعد ایف آئی اے نے اومنی گروپ کے مالک انور مجید اور ان کے بیٹے کو عدالت کے احاطے سے گرفتار کرلیا تھا۔

منی لانڈرنگ کیس

واضح رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے 6 جولائی کو حسین لوائی سمیت 3 اہم بینکرز کو منی لانڈرنگ کے الزامات میں حراست میں لیا گیا تھا۔

حسین لوائی اور دیگر کے خلاف درج ایف آئی آر میں اہم انکشاف سامنے آیا تھا جس کے مطابق اس کیس میں بڑی سیاسی اور کاروباری شخصیات کے نام شامل تھے۔

ایف آئی آر کے مندرجات میں منی لانڈرنگ سے فائدہ اٹھانے والی آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی کمپنی کا ذکر بھی تھا، اس کے علاوہ یہ بھی ذکر تھا کہ زرداری گروپ نے ڈیڑھ کروڑ کی منی لانڈرنگ کی رقم وصول کی۔

ایف آئی آر کے متن میں منی لانڈرنگ سے فائدہ اٹھانے والی کمپنیوں اور افراد کو سمن جاری کیا گیا جبکہ فائدہ اٹھانے والے افراد اور کمپنیوں سے وضاحت بھی طلب کی گئی تھی۔

ایف آئی آر کے متن میں مزید کہا گیا تھا کہ اربوں روپے کی منی لانڈرنگ 6 مارچ 2014 سے 12 جنوری 2015 تک کی گئی جبکہ ایف آئی اے کی جانب سے آصف زرداری اور فریال تالپور کو مفرور بھی قرار دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: آصف زرداری اور فریال تالپور مفرور قرار

جس کے بعد جعلی اکاؤنٹس کیس اور 35 ارب روپے کی فرضی لین دین سے متعلق کیس میں ایف آئی اے کی درخواست پر آصف علی زرداری اور فریال تالپور کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا۔

تاہم چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے اس بات سے انکار کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے دونوں رہنما منی لانڈرنگ کیس میں ملزم ہیں۔

جس کے بعد نگراں حکومت کی جانب سے آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکال دیا گیا تھا۔

بعدازاں فریال تالپور نے لاڑکانہ میں سندھ ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرلی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں