سندھ کابینہ کا پہلا اجلاس:کراچی کیلئے پانی کے نئے پلانٹ لگانے کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 21 اگست 2018
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی زیر صدارت سندھ کابینہ کا پہلا اجلاس — فوٹو: اے پی پی
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی زیر صدارت سندھ کابینہ کا پہلا اجلاس — فوٹو: اے پی پی

سندھ کابینہ کے پہلے اجلاس میں تھر اور عمر کوٹ کے کچھ حصے کو قحط زدہ علاقہ قرار دے دیا گیا جبکہ کراچی کے لوگوں کو پینے کے پانی کی فراہمی کے لئے ڈی سیلینیشن پلانٹ کے قیام کا بھی فیصلہ کیا گیا۔

سرکاری خبر رساں ایجنسی 'اے پی پی' کے مطابق پیر کے روز سندھ سیکرٹریٹ میں سندھ کابینہ کا پہلا اجلاس وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیرصدارت منعقد ہوا۔

اجلاس میں تمام وزرا، مشیروں، چیف سیکرٹری سندھ، آئی جی پولیس اور متعلقہ سیکرٹریز نے شرکت کی۔

مزید پڑھیں: سندھ کابینہ کے ارکان نے حلف اٹھالیا

اجلاس کے دوران وزیر اعلیٰ سندھ نے 30 ستمبر سے قبل نیا بجٹ بنانے اور اسے اسمبلی میں پیش کرنے کا عندیہ دیا۔

وزیراعلیٰ سندھ نے صوبائی وزیر بلدیات کو ہدایت کی کہ وہ کراچی میں ڈی سیلینیشن پلانٹ کی تنصیب کا کام جنگی بنیادوں پر شروع کریں تاکہ شہر میں پانی کے مسئلے کو جلد سے جلد حل کیا جا سکے۔

سیکرٹری داخلہ اور انسپکٹر جنرل پولیس نے کابینہ کو صوبے میں امن و امان کی صورتحال سے متعلق بریفنگ دی۔

وزیراعلی سندھ نے آئی جی سندھ سے جیکب آباد، شکار پور، دادو اور اس کے گرد و نواح میں میں سخت اقدامات کو یقینی بنانے کی ہدایت کی۔

سیکریٹری آبپاشی جمال شاہ نے کابینہ کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پانی کی قلت کے باعث چاول کی فصل کو نقصان ہوا ہے۔

وزیراعلی سندھ نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی کو دیکھتے ہوئے پانی کی دستیابی کی صورتحال خراب ہونے کی توقع ہے، لہذا اس حوالے سے ممکنہ اقدامات کئے جائیں۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان کی 16 رکنی کابینہ نے حلف اٹھالیا

انہوں نے کہا کہ دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر، پانی کی نگرانی اور سیلابی صورتحال کے حوالے سے موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

وزیراعلی سندھ نے کہا کہ کینجھر ، ہالیجی،ھیڈرو اور دیگر کو بھی ترقی دی جائے تاکہ کراچی اور کے بی فیڈر کے لیے پانی کی فراہمی کے لیے ذخائر میسرآسکیں۔

وزیراعلی سندھ نے صوبائی وزرا اور مشیروں کو ہدایت کی کہ وہ بیراجوں کے دورے کریں اور موقع پر پانی کی بریفنگ حاصل کرکے انہیں رپورٹ کریں۔

وزیراعلی سندھ نے کہا کہ انہوں نے دریائے سندھ کے بائیں کنارے پر چاول کی کاشت پر پابندی عائد کردی ہے۔

بورڈ آف ریونیو کے رکن اقبال درانی نے کابینہ کو تھر میں خشک سالی سے متعلق صورتحال کے بارے میں بریفنگ دی۔

انہوں نے کہا کہ خشک سالی کا عرصہ عام طور پر خشک موسم کی وجہ سے ہوتا ہے جوکہ لمبے عرصے پر پھیل گیا جس کی وجہ سے خطے میں فصلوں کو نقصان پہنچا ہے اور لوگ بھی متاثر ہوئے ہیں۔

بورڈ آف ریونیو نے سفارش کی کہ سرکاری واجبات ملتوی کیے جائیں اور سرکاری ڈیوٹیز کی معافی دی جائے۔

کابینہ میں فیصلہ کیا گیا کہ ہر ماہ ہر خاندان کے لیے 50 کلو گرام گندم تقسیم کی جائے گی۔

وزیراعلی سندھ نے بورڈ آف ریونیو کے رکن کو ہدایت کی کہ وہ اچھروتھر، کاچو اور کوہستان سے بھی متعلقہ ڈپٹی کمشنر سے خشک سالی کی صورتحال کے بارے میں معلوم کریں تاکہ وہاں پر رہنے والے لوگوں کی مدد کی جا سکے۔

تبصرے (3) بند ہیں

Haider Shah Aug 21, 2018 08:54am
They have guts and ball to take immediate action on, rest will go under the carpet بورڈ آف ریونیو نے سفارش کی کہ سرکاری واجبات ملتوی کیے جائیں اور سرکاری ڈیوٹیز کی معافی دی جائے۔
KHAN Aug 21, 2018 09:16pm
وزیر اعلیٰ سندھ کو واقعی کراچی میں پانی کی کمی کا احساس ہے اور وہ خلوص دل سے کراچی میں پینے کے پانی کی فراہمی کا مسئلہ کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم اس کا حل ڈی سیلینشن پلانٹ نہیں ہے۔ کراچی میں بغیر کسی منصوبہ بندی کے کیماڑی اور لیاری کے لیے اربوں روپے کی لاگت سے 17 پلانٹ لگائے گئے اور اس کو چلانے کے نام پر بھی مزید اربوں روپے کے فنڈز جاری ہوئے، تاہم صورتحال یہ ہے کہ ان میں سے کوئی پلانٹ اب تک مکمل استعداد سے نہیں چلا۔ کچھ تو ایک دن بھی نہیں چلے، بلال ہائوس سے صرف 1 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع سکندر آباد و دیگر قریبی پلانٹوں کو کے الیکٹرک نے کروڑوں روپے سیکیورٹی ڈپازٹ لینے کے باجود بجلی کے کنکشن تک نہیں دیے، نجی کمپنی اور سرکاری افسران نے ان فنڈز کو شیر مادر سمجھ کر ہڑپ کیا۔ اگر یہ پلانٹ چلتے تو کراچی کے 20 فیصد آبادی کو پانی کی فراہمی ہوتی۔کراچی کیلیے کے 4 منصوبہ جاری ہے، اس پر ٹائم تو لگے گا مگر انشاء اللہ مکمل ہونے سے کراچی میں پانی کا مسئلہ قابو میں آسکتا ہے۔ اسی طرح رساؤ سے ضائع ہونے والے پانی کو بچانے کا بندوبست کیا جائے اور ہر علاقے میں پانی ٹائم ٹیبل کے مطابق فراہم کیا جائے۔ جاری
KHAN Aug 21, 2018 09:16pm
صورتحال یہ ہے کہ کچھ علاقوں کو 24 گھنٹے اور کچھ کو ہفتے بعد پانی فراہم کیا جاتا ہے اور زیادہ تر کو لائینیں ہونے کے باوجود بالکل بھی نہیں۔ اس کی تفصیلات کراچی واٹر بورڈ کے پاس موجود ہے، پانی کی فراہمی صرف و صرف مقررہ اوقات میں کی جائے اور روزانہ فراہمی کے بجائے کم از کم 4 دن بعد ایک مقررہ علاقے کوپورا دن پانی فراہم کیا جائے جو زیادہ مشکل نہیں۔ کراچی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ڈی سیلینشن پلانٹ سب سے مہنگا طریقہ ہے۔ اس کی لاگت کے علاوہ شہر کے قریب جگہ بھی موجود نہیں جہاں اس کو بناکرعوام کو پانی فراہم کیا جائے۔ اگر اس کو ہاکس بے کے قریب بنایا جائے تو وہاں سے کراچی سپلائی کرنا مشکل ہوگا، اسی طرح وہاں ایک نیوکلیئر پاور پلانٹ پہلے سے موجود اور 2200 میگا واٹ کے زیر تعمیر ہیں۔ وہاں سے سمندر کا پانی ان پاور پلانٹ میں استعمال ہوتا ہے۔ اگر اس کو ڈی ایچ اے کے لیے تعمیر کیا جارہا ہے تو واٹر کمیشن ڈی ایچ اے، بحریہ ٹائون اور ڈی ایچ اے سٹی کو اپنے خرچ پر وہاں رہنے والوں کے لیے پلانٹ لگانے کے احکامات دے چکا ہے۔ کراچی کے لیے پانی کا کوٹہ بڑھانے کی منظوری کے لیے وزیر اعظم عمران خان سے بات کی جائے۔