قاہرہ: مصر کی اعلیٰ ترین مذہبی درس گاہ جامعتہ الازہر نے ملک میں جنسی طور پر ہراساں کرنے سے متعلق پیش آنے والے حالیہ واقعات میں ملوث افراد کو سخت سزائیں دینے کا مطالبہ کردیا۔

واضح رہے کہ مصر میں عید الاضحیٰ کی تعطیلات کے دوران ہراساں کیے جانے والے متاثرہ افراد یا آس پاس موجود لوگوں نے اس طرح کے کئی واقعات ریکارڈ کر کے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے جس سے مصری عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔

اس طرح کی ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اسکندریہ شہر میں ’میڈیٹیرن سی‘ کے کنارے جھگڑا ہوا جس میں ایک 40 سالہ شخص کو اس وقت چاقو مار کر ہلاک کردیا جب اس نے دوسرے شخص کو اپنی بیوی کو ہراساں کرنے سے روکا۔

یہ بھی پڑھیں: جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات پر شوبز سے وابستہ خواتین کا ردعمل

مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ چاقو مارنے والے 39 سالہ شخص کو حراست میں لیا جاچکا ہے، تاہم اس کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔

اسی طرح کی ایک اور سوشل میڈیا پوسٹ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دمنھور شہر میں دریائے نیل کے کنارے نوجوانوں کا ہجوم ایک موٹر سائیکل سوار سے لڑرہا تھا جس نے 3 خواتین کو سڑک پر لٹنے سے بچایا۔

ان ویڈیو کی صداقت کے حوالے سے کوئی ٹھوس اطلاعات نہیں ہیں لیکن مقامی میڈیا نے اس حوالے سے رپورٹ کیا ہے۔

اس تناظر میں مصر کی قدیم جامعہ جامعتہ الازہر کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ جنسی طور پر ہراساں کرنا ہر لحاظ سے غلط ہے، اور اس سلسلے میں خواتین کے لباس یا رویوں کو جواز بنانے کو بھی مسترد کردیا۔

مزید پڑھیں: پوپ فرانسس کی مفتی اعظم جامعۃ الازہر سے ملاقات

جامعتہ الازہر کی جانب سے انگریزی میں جاری خصوصی بیان میں کہا گیا کہ الازہر میں سوشل میڈیا اور مقامی میڈیا میں جنسی طور پر ہراساں کیے جانے اور اس قسم کی حرکات کو روکنے والوں کےخلاف حملوں کے واقعات کے حوالے سے آنے والی رپورٹوں کا جائزہ لیا گیا۔

جامعتہ الازہر نےاس بات پر زور دیا کہ ہراساں کرنے کو جرم قرار دیا جائے اور اس کا ارتکاب کرنے والوں کو بغیر کسی شرط اور تناظر میں مجرم قرار دیا جائے اور سخت سزا دی جائے۔

بیان میں ہراساں کیے جانے پر خواتین کو قصوروار ٹھہرانے کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا گیا کہ بدسلوکی پر مبنی رویہ خواتین کی حفاظت، آزادی اور انسانی وقار کے خلاف ہے۔


یہ خبر 29 اگست 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں