وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکی وفد کی آمد کو تعلقات میں نئے دور کا آغاز قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو کے ساتھ ہم نے 300 ملین ڈالر کی امداد روکنے کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔

امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو اور جنرل جوزف ڈونفرڈ کے ساتھ ملاقات کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہ محمود نے کہا کہ ہم نے امریکی وفد پر واضح کیا کہ ایک دوسرے کے تحفظات کو سن کر آگے بڑھنا ہوگا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ '300 ملین ڈالر کی امداد روکی گئی، یہ فیصلہ بھی پرانا ہے اور خبر بھی پرانی ہے اور یہ پرانی حکومت میں ہوا تھا اس حکومت کے آنے سے پہلے اور ان کے پاس جو پیسہ پڑا تھا اس کو استعمال کرنے کا موقع تھا لیکن تاثر دیا گیا کہ رقم کی منتقلی روک دی گئی، جو غلط تھا'۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے سوچا کہ اس پر تبادلہ خیال کرنا چاہیے یا نہیں اور پھر ہم نے کہا کہ نہیں کریں گے کیونکہ ہمارے پاس اپنی روٹی روزی کمانے کی گنجائش موجود ہے اس لیے کسی قسم کے پیسوں پر بات کرنے کی ضرورت نہیں تھی'۔

یہ بھی پڑھیں:مائیک پومپیو، جنرل جوزف ڈنفرڈ وزیراعظم سے ملاقات کے بعد بھارت روانہ

ان کا کہنا تھا کہ 'عمران خان برسوں سے کہہ رہے ہیں کہ کوئی ملٹری سلوشن نہیں، اس لیے سیاسی حل کی جانب جانا ہوگا اور یہ سیاسی تبدیلی آئی ہے'۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ‘سیاسی مذاکرات ہوں گے اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اس کی رہنمائی کرے گا اور مذاکرات بھی ہوں اور اس سے یہ اشارہ ملا کہ وہ ذہنی طور پر اس تجویز کے لیے تیار ہیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ معنی خیز ہے کہ وہ افغانستان میں دیرپا وقت تک رہنا نہیں چاہتے’۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ‘میں نے ان سے واشگاف الفاظ میں کہا کہ اگر تعلق کو آگے بڑھانا ہے تو یہ سچائی کی بنیاد پر ہونا چاہیے جو آپ کہیں گے میں سنوں گا اور جو میں کہوں کا آپ کو سننا پڑے گا، جب تک ہمارے تحفظات سنے نہیں جائیں گے تو پیش رفت نہیں ہوگی’۔

مذاکرات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ‘ہم نے ان کی خواہشات کو بھی سمجھا اور اپنی توقعات اور تحفظات بھی اچھے انداز میں پیش کیے’۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ سیکریٹری آف اسٹیٹ پومیپو کو واضح اشارہ کیا کہ انہیں دیکھنا ہوگا کہ جو نئی حکومت منتخب ہو کر آئی ہے جس کا موقف کیا ہے اور لوگوں کو اس سے توقعات کیا ہیں، اس کو سمجھنا ہوگا۔

'پہلا دورہ افغانستان کا ہوگا'

افغانستان کے حوالے سے ہونے والی گفتگو پر وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ 'ہم نے کہا کہ ہمارے ہمسایہ میں جو ممالک ہیں ان کے ساتھ ایک مثبت سوچ کا ارادہ رکھتے ہیں، تحریک انصاف کی حکومت کا اصلاحات کا ایجنڈا ہے جس کی بنیاد عوام کی بہتری ہے، ایک عام پاکستانی شہری کی بہتری ہے'۔

انہوں نے کہا 'ہمارا مقصد امن، استحکام اور خطے سے جڑنا ہے اور یہ ہمارا ایجنڈا ہے تو ہماری خارجہ پالیسی کو آگے بڑھانے کے لیے اسی کا ماڈل اپنانا ہوگا اس لیے ہم ایک نئی سوچ کے تحت آگے بڑھنا چاہتے ہیں'۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 'اس کی روشنی میں، میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میرا پہلا دورہ افغانستان کا ہوگا، بطور پڑوسی ہم ایک دوسرے کا سہارا بھی ہیں اور ضرورت بھی ہیں کیونکہ ہمیں روایت، مذہب اور کلچر نے جوڑا ہوا ہے، افغانستان میں امن آئے گا تو ہمیں بھی فائدہ ہوگا اور پاکستان ترقی کرے گا تو افغانستان کو فائدہ ہوگا، اسی سوچ کے تحت افغانستان جانے کا ارادہ ہے'۔

امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ سے ہونے والی بات چیت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ 'آج وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی گفتگو کا فارمیٹ اس طرح ترتیب دیا گیا تھا کہ جب مائیک پومپیو سے ملاقات ہورہی تھی تو وزیراعظم عمران خان، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، ڈی جی آئی ایس آئی نوید مختار اور جنرل جوزف نے مل بیٹھ کر تبادلہ خیال کیا اور اس کے پیچھے ایک سوچ تھی'۔

انہوں نے کہا کہ 'ماضی میں عام تاثر تھا کہ وہ آئے ملے اور جی ایچ کیو گئے اور لوگوں نے تاثر دیا کہ سویلین کچھ اور کہتے ہیں، ملٹری کچھ اور کہتی ہے لیکن آج کی ملاقات سے یہ پیغام گیا ہے کہ ہم سب ایک پیج پر ہیں اور پاکستان کا مفاد سب کو عزیز ہے اور مقدم ہے، اور اسی کو آگے لے کر چلیں گے'۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ 'میں نے ان سے جہاں یہ خواہش کی کہ افغانستان میں اگر آگے بڑھنا ہے تو پاکستان کے ساتھ بھی مدد کرنا ہوگی اور پاکستان مثبت کردار ادا کرتا رہے گا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم نے واضح کہا ہے کہ اگر ہم نے مغربی سرحد کی جانب توجہ دینا ہے تو ہمیں مشرقی سرحد میں مدد درکا ہے کیونکہ کنٹرول لائن (ایل او سی) میں جنگ بندی کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور ضروری ہے کہ اس سمت بھی دیکھیں اور کون کیا کردار ادا کرسکتا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'آج کی نشست ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے کے لیے ایک سیر حاصل نشست تھی، ان سے یہ بھی کہا کہ الزامات سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، ہمارے چیلنجز ہیں اور کئی پہلوؤں سے اس میں ہماری سمت بھی جداگانہ ہوگی، لیکن ایک دوسرے سے گفت شنید سے آگے بڑھیں گے'۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ 'میں نے جو چیز واضح محسوس کی وہ یہ تھی کہ آج کی نشست میں دو طرفہ تعلقات کو دوبارہ ٹھیک کرنے کا موقع ملا اور اگر تعطل تھا تو وہ بھی ٹوٹ گیا'۔

قبل ازیں امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل جوزف ڈونفرڈ نے پاکستان کے دورے میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی۔

مائیک پومپیو کی سربراہی میں امریکی وفد نے پہلے وزیر خارجہ سے ملاقات کی جس کے بعد وزیراعظم ہاؤس گئے جہاں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل نوید مختار بھی موجود تھے۔

امریکی وفد وزیراعظم عمران خان اور دیگر سے ملاقات کے بعد بھارت کے لیے روانہ ہوگیا۔

تبصرے (0) بند ہیں