شیریں فرہاد ہوں، سوہنی ماہیوال یا پھر رومیو جولیٹ، ان رومانوی کہانیوں کا اختتام محبوب کی جدائی پر ہی ہوتا ہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ پیار کرنے والے اسے محبت کے امر ہوجانے سے منسوب کرتے ہیں۔

لیلیٰ مجنوں کی داستان کو لکھاریوں نے اپنے انداز میں لکھا اور فلمسازوں نے مختلف ادوار میں اس کہانی کو اپنے اپنے انداز میں پردے پر پیش کیا، اور ایک بار پھر لیلیٰ مجنوں کی داستان رواں سال ایک نئے انداز میں سنیما میں پیش کی گئی۔

نئے دور کی یہ کہانی امتیاز علی نے لکھی ہے اور فلم کے ڈائریکٹر ساجد علی ہیں جبکہ ایکتا کپور اس کی پروڈیوسر۔

فلم کے مرکزی کردار میں اویناش تیواری ’قیس‘ بنے ہیں جبکہ ترپتی دمری لیلیٰ ابن مسعود بنی ہیں۔ مسعود یعنی لیلیٰ کے والد کا کردار پرمیت سیٹھی نے نبھایا ہے۔

کہانی

فلم کا پہلا حصہ آپ کو لیلیٰ سے ملوائے گا۔ سانولی رنگت کی ایک لڑکی، جس کے حُسن پر محلے کے کم و بیش سارے ہی لڑکے فدا ہیں۔ کشمیر میں عکسبند کی گئی فلم کی سینماٹوگرافی سے بعض مقامات پر فلم آپ کو پاکستانی محسوس ہوگی، بلکہ ممکن ہے کہ شاید آپ کو غلط سنیما ہال میں بیٹھنے کا گمان بھی ہونے لگے۔

فلم کا پوسٹر
فلم کا پوسٹر

اپنی بہن کے ساتھ کالج میں پڑھنے والی لیلیٰ کو بھی معلوم ہے کہ وہ کیسی لگتی ہے اور کتنے لڑکے اس پر جان چھڑکتے ہیں۔ لیلیٰ رات کے اندھیرے میں لڑکپن کے جوش میں کسی تلاش میں اپنی بہن کو لے کر گھر سے تھوڑا ہی دور پہنچتی ہے تو 2 جیپوں کی آواز ان کی جان نکال دیتی ہے۔ آگے جو کچھ ہے وہ فلم میں دلچسپی بنائے رکھتا ہے۔ گوکہ فلم کے پہلے حصے میں لیلیٰ کا تعارف مقصود تھا لیکن لیلیٰ کے ساتھ مجنوں لازمی جُز ہے۔

نئے دور کی آئی فون والی محبت میں پرانے وقتوں کے کبوتروں کی چٹھیاں بھیجنے والا سلسلہ امتیاز علی کی منفرد کاوش ہے۔

2 خاندانوں کی لڑائی کے بیچ میں لیلیٰ اور مجنوں کسی بھی دور میں ایک نہیں ہوسکے۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہوگا کیونکہ لیلیٰ کے باپ کو غلط مشورے دینے والا ولن بھی فلم میں موجود ہے۔ کہانی میں کافی ٹوئسٹ ہے۔ پاپ کارنز کا وقفہ لیتے ہیں۔

وقفے میں کچھ بات ہوجائے فلم کی موسیقی کی، جسے سنیدھی چوہان، جوئی بارئوا اور نیلدری کمار نے ترتیب دیا ہے۔

موسیقی

جوئی بارئوا 'جوئی' بینڈ کے لیڈ ووکلسٹ بھی ہیں، ساتھ ہی کئی مشہور گیتوں کی موسیقی بھی ترتیب دے چکے ہیں۔ سنیدھی چوہان کلاسیکل، راک اور پاپ موسیقی پر عبور رکھتی ہیں، جبکہ نیلندری کمار بہترین کلاسیکل اور فیوژن موسیقار ہیں۔ اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کشمیر کی پہاڑیوں پر رباب اور ستار کی موسیقی کی دھنون نے کیسا رنگ جمایا ہوگا۔

شریا گھوشال اور بابل سپریو کا گیت ’سر پھری‘ بھی ان ہی وادیوں میں فلمایا گیا ہے۔ ایک لمحے کو آپ کو بابل سپریو کی آواز شنکر مہادیون کی سی محسوس ہوگی مگر ایسا ہے نہیں۔

امتیاز علی کی فلم ہو اور موہت چوہان نا ہوں، ناممکن! اسی طرح عاطف اسلم اور اریجیت نے بھی موقعے کی مناسبت سے جو گیت گائے ہیں وہ فلم کی خوبصورتی میں اضافہ کررہے ہیں۔ یقیناً اے آر رحمن کے قریب پہنچنا تو بہت مشکل ہے لیکن فلم کی موسیقی کے حصے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

اداکاری

رہی بات اداکاری کی تو مجنوں یعنی قیس کے باپ کا کردار ایک تو بہت چھوٹا سا ہے، ساتھ ہی کمزور بھی۔ لیلیٰ کے باپ مسعود کا کردار اس مقابلے میں بڑا ہے۔ شاید آپ کو لیلیٰ کو دیکھ کر بعض مقامات پر لیلیٰ کی سہلیاں زیادہ خوبصورت اور بھلی معلوم ہوں لیکن یہاں لیلیٰ کا تصور سانولے رنگ سے منسوب کرنے کی کوشش مقصود ہے۔ رہی بات مجنوں کی تو اس کا بھائی زید بھی کچھ کم نہیں ہے۔

مگر کردار مجنوں یعنی قیس پر ہی جچ رہا ہے۔ اپنے خوبصورت نا ہونے کا اعتراف خود مجنوں نے ایک ڈائیلاگ میں کیا ہے، لیلیٰ بولتی ہے زیادہ اسمارٹ مت بنو؟

جس پر قیس کہتا ہے، ’بہت محنت کرتا ہوں اسمارٹ بننے کے لیے، شکل اچھی نہیں ہے نا‘۔

اداکاری کے معاملے میں لیلیٰ کا کردار مجنوں کے سامنے تھوڑا کمزور ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید مجنوں کو دیا جانے والا وقت ہے یعنی ایئرٹائم کیونکہ انٹرویل سے قبل اور بعد میں مجنوں ہی فلم میں توجہ کا مرکز ہے۔ خیر وقفہ ختم ہوا، اب ڈائیلاگ ملاحظہ فرمائیں:

'پیار کا پرابلم کیا ہے نا، جب تک اس میں پاگل پن نا ہو وہ پیار ہی نہیں'۔

انٹرویل کے بعد فلم کا دوسرا حصہ مجنوں یعنی قیس کا تعارف ہے۔ جی ہاں تمام داستانوں میں مجنوں کا نام قیس کے نام سے ہی جانا جاتا ہے۔

اداکاری کے معاملے میں لیلیٰ کا کردار مجنوں کے سامنے تھوڑا کمزور ہے
اداکاری کے معاملے میں لیلیٰ کا کردار مجنوں کے سامنے تھوڑا کمزور ہے

اویناش تیواری نے قیس کا کردار بھرپور انداز میں نبھایا ہے۔ قیس کو پہاڑوں سے بہت لگاؤ ہے، وہ یہ بات لیلیٰ کو بتا چکا تھا۔ وہ پہاڑ کے اس پار دیکھنا چاہتا ہے۔ فلم کے اس حصے میں وہ 4 سال بعد بیرونِ ملک سے واپس آیا ہے۔ فلم کے ایک حصے میں آپ کو راک اسٹار کی نرگس فخری اور ایک میں جب وی میٹ کی کرینہ کپور کے انداز کی جھلک دکھائی دے گی، ظاہر ہے امتیاز علی نے جو لکھی ہے۔ باقی کبیرا گانے کے بعد لڑکی کو شادی سے چھوڑ کر جانے والے منظر سے پاکستانی اور بولی وڈ ڈائریکٹرز کچھ زیادہ ہی متاثر لگتے ہیں۔

بہرحال فلم کے دوسرے حصے کی بوریت اور سنجیدہ موضوع کو اگر ہلکے پھلکے انداز میں پیش نا کیا جاتا تو شاید فلم فلاپ ہی ہوجاتی۔ فلم کے اس حصے میں گیتوں نے بھی بھرپور جان ڈالی ہے۔ عاطف اسلم کا ’او میری لیلیٰ‘ فلم کا ٹائٹل سانگ، جبکہ ’حافط حافظ‘ اور ’آہستہ‘ نامی گیت عوام میں مقبول ہورہے ہیں۔

یہاں مجنوں کو پتھر سے مارنے والے حصے کو نئے انداز میں فلمایا گیا ہے۔ حالانکہ داستانوں میں وہ سلسلہ دوسری نوعیت کا تھا۔ قیس فلم میں اپنی لیلیٰ سے جانتے ہیں کیا کہتا ہے؟ کہتا ہے کہ، ’تمہیں کیا لگتا ہے، یہ سب ہم کررہے ہیں؟ ہماری کہانی لکھی ہوئی ہے‘۔

جی ہاں، کہانی لکھی ہوتی ہے۔ محبت کس کے حصے میں کیسے آنی ہے، طے شدہ ہوتا ہے، ہم سب بس انتظار کرتے ہیں۔ فلم لیلیٰ مجنوں کی کہانی دراصل اس انتظار کی ترجمانی ہے۔ محبت میں یہ انتظار جب بڑھتا چلا جاتا ہے تو انسان کسی اور دنیا میں چلا جاتا ہے، اپنی لیلیٰ کو لے کر کسی خیال میں گم ہوجاتا ہے۔ وہ لیلیٰ بظاہر اسے نا بھی ملے، اس کے خیال کے ذریعے اس کے وجود میں اتر چکی ہوتی ہے!

ارے ہاں، ٹھہریے! عاطف اسلم کا گیت 'او میری لیلیٰ' فلم کے اختتام میں آئے گا۔

وہ کیا ہے نا، فلم کی ہیپی اینڈنگ نا بھی ہو تو ایسے گیت خوشی خوشی واپس لوٹنے کا ماحول بنا ہی دیتے ہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

Aqsa Javaid Sep 13, 2018 12:08pm
Nice
سید سبط حسان رضوی Sep 13, 2018 04:29pm
@Aqsa Javaid شکریہ