کوئٹہ: بلوچستان حکومت نے صنعتی علاقوں حب اور وندر میں 15 غیرمنظور شدہ ہاؤسنگ اسکیموں پر فوری طور پر کام روک دیا، ساتھ ہی قانون پر سختی سے عمل درآمد کے لیے ان اسکیوں کو نان آبجیکشن سرٹیفکیٹ (این او سی) سے منسک کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کی جانب سے اس بات کا اعلان حب میں سرکاری افسران اور قبائلی اور سیاسی عمائدین سے خطاب کے دوران کیا گیا۔

وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ وندر میں 8 اور حب میں 7 غیر منظور شدہ ہاؤسنگ اسکیموں پر کام جاری تھی، جنہیں روک دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: سی پیک بلوچستان کی قسمت بدل دے گا، ڈاکٹر جمعہ خان مری

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے علاقے لسبیلا اور دیگر اضلاع میں غیرمنظور شدہ ہاؤسنگ اسکیموں کی اجازت نہیں ہوگی اور اس طرح کی غیر قانونی اسکیموں پر حب سمیت دیگر علاقے میں پابندی ہوگی۔

ترقیاتی اسکیموں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان ہائی کورٹ نے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کی 1600 غیر منظورشدہ ترقیاتی اسکیموں پر کام روک دیا۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ ’یہ اسکیمیں صوبائی حکومت اور متعلقہ محکموں سے منظور نہیں کرائی گئی تھی جبکہ گزشتہ ادوار میں ترقیاتی اسکیموں کے لیے فنڈز کے اجراء میں تفریق برتی جاتی تھی۔

انہوں نے کہا کہ کچھ منصوبوں کے لیے 5 ارب روپے جاری کیے جاتے تھے جبکہ دیگر کے لیے 20 کروڑ روپے کا اجراء ہوتا تھا، جس کی وجہ سے صوبے کی ترقی پر فرق پڑا اور یہ فنڈز انفرادی نوعیت کی اسکیموں پر خرچ ہوئے۔

وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ صوبے میں ترقیاتی کاموں میں کوئی سیاسی اثر و رسوخ نہیں ہوگا اور تمام ترقیاتی کام میرٹ کی بنیاد پر ہوگا، اس کے علاوہ صوبے میں گزشتہ ادوار کی طرح کی پالیسیاں اب جاری نہیں رہیں گی اور حکومت اپنی تمام توجہ میرٹ پر عمل درآمد اور اداروں کو مضبوط بنانے پر دے گی۔

یہ بھی پڑھیں: ‘بلوچستان کے لوگوں کو سی پیک منصوبے میں جائز حق دلوائیں گے‘

جام کمال کا کہنا تھا کہ حکومت نوجوانوں کو تعلیم فراہم کرکے میرٹ کی بنیاد پر انہیں نوکریاں دے کر بیروزگاری پر قابو پائے گی، اسی سلسلے میں صوبے بھر میں 28 ہزار ملازمتیں دی جائے گی جبکہ محکمہ تعلیم میں مزید ملازمتوں کی جگہ بنائی جائے گی۔

پانی کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کوئٹہ، گوادر اور صوبے کے دیگر علاقے پانی کے بحران کا سامنا کر رہے ہیں، تاہم حکومت اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لارہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ حکومت نے پٹ فیدر نہر سے کوئٹہ تک پانی لاے کے لیے 40 ارب روپے کا واٹر سپلائی منصوبے کی منظوری دی تھی لیکن اس سلسلے میں کوئی عملی رپورٹ تیار نہیں کی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں