زمین پر پانی کہاں سے اور کیسے آیا؟

24 ستمبر 2018
زمین کا تین چوتھائی حصہ پانی پر مشتمل ہے—فوٹو: نیوز ڈاٹ این یو ایس
زمین کا تین چوتھائی حصہ پانی پر مشتمل ہے—فوٹو: نیوز ڈاٹ این یو ایس

آج حیاتیاتی سائنس بہت ترقی کرچکی ہے لیکن اب بھی اس بارے میں تحقیق جاری ہے کہ زمین پر پانی کیسے آیا؟ کیا زمین پر ہم سے پہلے کسی مخلوق رہائش پذیر تھی جس نے پانی بنایا یا اس سب کے پیچھے وجہ کچھ اور ہی ہے؟

ہم جانتے ہیں کہ زمین کا تین چوتھائی حصہ پانی ہے اور اس کا بڑا حصہ سمندری پانی پر مشتمل ہے جبکہ صرف 3 فیصد حصہ "صاف پانی" پر مشتمل ہے.

واضع رہے کہ ہم انسانوں کے لیے یہ 3 فیصد حصہ ہی پینے کے قابل ہے, لیکن آج ہم اس صاف پانی کا بے دریغ استعمال کر کے اسے ناقابل استعمال بنا رہے ہیں۔

اگر پاکستان میں موجودہ شرح کے مطابق پانی کا استعمال جاری رہا تو ماہرین کے مطابق 2025 تک اس ملک میں صاف پانی میسر نہیں ہوگا اور عوام ایک ایک بوند کو ترس جائے گا.

بہت سے لوگ یہ کہتے بھی پائے گئے ہیں کہ "ایک طرف سائنسدان کہتے ہیں کہ دنیا کا پانی ازل سے اب تک برابر ہے اور دوسری طرف پانی ختم ہوجانے کا ڈر پیدا کیا ہوا ہے تو سچ کیا ہے؟

اس بات کا آسان سا جواب یہ ہے کہ دنیا میں "پانی" ازل سے موجود "پانی" کے برابر ہے لیکن ازل میں موجود "صاف پانی" کے مقابلے میں آج "صاف پانی" بہت کم ہے.

ہم سب پانی کا استعمال تو کر رہے ہیں، لیکن بہت کم ہی ایسے لوگ ہیں جو صاف پانی بنانے کے بارے میں سوچ رہے ہوں، مگر کیا آج بھی ہم اسی طرح پانی بنا سکتے ہیں جس طرح تقریبا 3 ارب سال پہلے پانی زمین پر وجود میں آیا؟

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کس طرح قیمتی پانی ضائع کرتا ہے

اس بات کا جواب 100 فیصد یقین کے ساتھ تو نہیں دیا جا سکتا لیکن ہاں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پانی کے وجود کے بارے میں سائنسدانوں نے جو 2 نظریے پیش کیے ہیں ان کی حقیقت تسلیم کی جا سکتی ہے، سائنسدانوں کی جانب سے پیش کیے گئے نظریے درج ذیل ہیں۔

پہلا نظریہ

کیمیائی عمل کے نتیجے میں پانی کا زمین پر وجود ہوا

اس پہلے نظریے کے مطابق 3 ارب سال پہلے جب زمین کو وجود میں آئے ہوئے تقریبا ایک ارب سال بیت چکا تھا اور زمین آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہو رہی تھی تو اس پر کیمیائی عمل کے نتیجے میں پانی وجود میں آیا، یاد رہے کہ زمین بھی ہائیڈروجن اور ہیلیم گیس کے اسی بادل سے وجود میں آئی جس سے نظام شمسی کا سورج اور باقی سیارے وجود میں آئے.

ماضی میں زمین ایک آگ کے گولے کی طرح تھی، جس میں مختلف معدنیات بھی موجود تھے، ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ ایٹم، جو مادے کا بنیادی زرہ ہے، اس وقت دوسرے ایٹم سے مل کر رشتہ بنائے گا جب اس کے آس پاس کا ماحول جس میں مخصوص درجہ حرارت اور دباؤ شامل ہے وہ ملاپ کے لیے بہتر ہوگا۔

شروع میں زمین بہت گرم تھی، جس وجہ سے ایٹمز آپس میں مل کر کوئی نئے مالیکیولز (ایٹمز کا مجموعہ) بنا رہے تھے، لیکن جیسے جیسے زمین ٹھنڈی ہوئی ویسے ہی مختلف ایٹمز ملے اور نئے مالیکیولز کو جنم دیا، یہ مالیکیولز بھی ایک دوسرے سے ملے اور مزید باریک مالیکیولز بنے، ان کے ملنے سے پہلا خلیہ (جانداروں کا بنیادی حصہ) جو کہ پہلا جاندار تھا فضاء میں آتش فشاں سے نکلنے والی ہائیڈروجن سلفائیڈ گیس اور زمین میں موجود ہائیڈروکاربنز (ایسے مالیکیول جو ہائیڈروجن، کاربن اور آکسیجن سے مل کر بنے ہوں) خوراک کے طور پر لیتا اور اس سے توانائی حاصل کرتا رہا.

زمین پر موجود صرف 3 فیصد پانی ہی استعمال کے قابل ہے—فوٹو: تھنگ لنک
زمین پر موجود صرف 3 فیصد پانی ہی استعمال کے قابل ہے—فوٹو: تھنگ لنک

ان چھوٹے جانداروں کا ایک ہی بنیادی اصول ہے کہ ہر 20 منٹ میں ایک سے 2 ہو جانا،اسی طرح ان کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوتا گیا اور ان کی بہت سے نسلیں بھی پیدا ہوئیں، چونکہ ارتقائی عمل کا آغاز ہو چکا تھا لہذا بعد میں آنے والی نسلوں میں اپنے آباء کی نسبت تبدیلیاں آچکی تھی اور وہ فضاء میں آکسیجن گیس بنانے لگے.

مزید پڑھیں: سندھ میں پانی کی قلت سے فصلوں کا کتنا نقصان؟

ان کی آبادی کے ساتھ ساتھ آکسیجن گیس میں اضافہ ہوں اور وہ جاندار جن کی مرکزی خوراک آکسیجن نہیں بلکہ ہائیڈروجن سلفائیڈ تھی ان کی آبادی مرنے لگی اور ختم ہو گئی.

آہستہ آہستہ آکسیجن گیس کی وجہ سے کرّہ ارض کے گرد "اوزون کی پٹی" بننے لگی، اس کے ساتھ ہی آکسیجن مٹی میں موجود دوسری معدنیات سے ملی اور اس کیمیائی عمل کے نتیجے میں پانی کا مالیکیول جس میں 2 ایٹم ہائیڈروجن اور ایک ایٹم آکسیجن کا ہوتا ہے وجود میں آیا.

اس عمل کو کیمیائی ریڈکشن کہتے ہیں، چونکہ ہائیڈروجن (معدنیات میں) اور آزاد آکسیجن (فضاء میں) دونوں کی وافر مقدار موجود تھی، لہذا پانی بھی تیزی سے بننے لگا اور زمین پر موجود تمام گڑھے پانی سے بھر گئے، سورج کی روشنی تو پہلے سے موجود تھی اس لیے بادل بننے کا عمل اور بارشوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا، جس سے زمین اور ٹھنڈی ہوتی چلی گئی اور مختلف اقسام کے جانداروں کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا.

دوسرا نظریہ

شہاب ثاقب کے ذریعے پانی کی زمین پر آمد

بیسویں صدی میں سائنسدانوں کو شہاب ثاقب اور دمدار ستاروں کے بارے میں بہت کچھ نیا پتا چلا, ہم جانتے ہیں کہ شہاب ثاقب وہ پتھریلے مادے ہیں جو نظام شمسی کے بننے کے ساتھ وجود میں آئے اور اگر ہم انہیں سیاروں اور سورج کے بننے میں باقی رہ جانے والا کچرا کہیں تو یہ غلط نہیں ہوگا.

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں پانی کی قلت سے صحرائی رقبے میں اضافہ

سائنسدانوں نے زمین پر گرنے والے ان پتھروں کا مشاہدہ بھی کیا کہ آخر یہ پتھر بنے کس چیز کے ہوتے ہیں؟ ان کی جانچ سے نہ صرف ہمیں یہ زمین اور باقی سیاروں کی حالت زار کے بارے میں بہت سی معلومات حاصل ہوئی، بلکہ یہ بھی پتا چلا کہ ان میں پانی بھی موجود ہے!!

پانی کے بے دریغ استعمال سے 2025 تک پاکستان پانی کی قلت کا شکار ہوگا—فوٹو: تھنگ لنک
پانی کے بے دریغ استعمال سے 2025 تک پاکستان پانی کی قلت کا شکار ہوگا—فوٹو: تھنگ لنک

چونکہ اس وقت تک سائنسدانوں نے نظام شمسی میں زمین کے علاوہ کسی اور سیارے پر پانی نہیں دیکھا تھا، لہذا اس دریافت پر وہ بہت حیران ہوگئے، سائنسدانوں نے تحقیق سے یہ بھی پتا لگایا کہ زمین کے بننے کے فورا بعد زمین پر کئی سالوں تک ان سیارچوں کی بارش ہوتی رہی اور عین ممکن ہے کہ یہ سیارچے اپنے ساتھ پانی زمین پر لائے ہوں۔

اس بات کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ زمین پر پانی کا وجود صرف سیارچوں کی بارش سے ہی ہوا بلکہ اس پانی کا زیادہ حصہ کیمیائی ریڈکشن کی وجہ سے وجود میں آیا اور کچھ حصہ ان سیارچوں کی وجہ سے آیا.

بہر حال ان دونوں نظریوں میں سے کسی ایک کو بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا، کیونکہ دونوں ہی دلائل سے ثابت ہیں زمین پر پانی کے وجود میں ان دونوں عوامل کی اپنی حثیت ہے.

یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ ہماری زندگیوں میں پانی کیا اہمیت رکھتا ہے، ہم پانی کے بنا زیادہ سے زیادہ 5 دن تک رہ سکتے ہیں اس کے بعد ہماری موت یقینی ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ صاف پانی کو ضائع ہونے سے بچائیں تا کہ ہم خود بھی سکون میں رہیں اور ہماری نسلیں بھی بہتر زندگی گزار سکیں.


سید منیب علی پنجاب کالج لاہور کے طالب علم، "لاہور آسٹرونومیکل سوسائٹی (LAST)" اور "دی پلانیٹری سوسائٹی (TPS) کے رکن اور علم فلکیات کے شوقین ہیں۔ 2013 سے آسمان کا مشاہدہ کر رہے ہیں، علم فلکیات کے موضوعات پر لکھنا ان کا من پسند مشغلہ ہے، ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں