اب آپ کو آف لائن ہوجانا چاہیے!

30 ستمبر 2018
اسمارٹ فونز دنیا ہماری انگلیوں پر لے آئے ہیں مگر اس سے افراد کے اندر اینگزائٹی اور ڈپریشن کے احساسات میں بھی اضافہ ہوا ہے— خاکہ بشکریہ سونہل خان
اسمارٹ فونز دنیا ہماری انگلیوں پر لے آئے ہیں مگر اس سے افراد کے اندر اینگزائٹی اور ڈپریشن کے احساسات میں بھی اضافہ ہوا ہے— خاکہ بشکریہ سونہل خان

آپ دن بھر میں اپنا اسمارٹ فون کتنی مرتبہ استعمال کرتے ہیں؟ کیا آپ بار بار۔ مثلاً ہر 10 منٹ بعد اپنا فیس بک یا انسٹاگرام اکاؤنٹ چیک کرتے ہیں؟ اگر اس سوال کا جواب ہاں میں ہے تو آپ کو باقاعدہ طور پر ڈیجیٹل دنیا کی لت لگ چکی ہے۔

لغوی معنوں میں لت ایسی ایک مضبوط اور نقصاندہ ضرورت ہوتی ہے جو آہستہ آہستہ آپ کی روز مرّہ کی عادت بن جاتی ہے جسے آپ کسی بھی قیمت پر چھوڑنا نہیں چاہتے۔ ڈیجیٹل لت ایک عالمی مظہر اور ایک سنگین مسئلہ ہے۔ چاہے یہ پارٹیاں ہوں، تقریبات، تعلیمی ادارے، دفاتر، یا پھر ڈنر ٹیبل، آپ کو ہر جگہ لوگ اپنی موبائل فون اسکرینز سے چپکے ہوئے نظر آئیں گے۔

ثمینہ احمد جو ایک تعلیم دان اور اسٹوڈنٹس کی کونسلر ہیں، کا مشاہدہ ہے کہ زیادہ تر بالغان ہونقوں کی طرح سوشل میڈیا فیڈز یا ویب سائٹس کو کھنگالتے رہتے ہیں کیوں کہ ان لوگوں کے مطابق یہ بوریت دور کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ شرمناک یا پریشان کن لمحات اور گفتگو سے بچنے کا بھی ایک آسان طریقہ ہے۔

جہاں ڈیجیٹل دنیا میں رہنے کے فوائد ہیں، وہیں اس کے نقصانات بھی ہیں۔ اسمارٹ فونز پر بے تحاشہ بھروسہ دماغ میں کیمیکلز کا توازن بگاڑ سکتا ہے جس سے ذہنی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ کلینیکل سائیکولوجسٹ امبر کاظمی نشاندہی کرتی ہیں کہ ڈیجیٹل لت کے کچھ اہم اشارے مثلاً نیند کی کمی، حقیقی دنیا سے کٹ جانا، سامنے موجود دوستوں اور گھر والوں سے الگ تھلگ ہوجانا، تعلقات میں مسائل اور انسانوں سے تعلقات میں کمی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اسمارٹ فونز کی مسلسل گھنٹی آپ کی توجہ اہم کاموں سے ہٹا سکتی ہے، آپ کے کام کی رفتار سست کر سکتی ہے اور ان خاموش لمحات میں مداخلت کر سکتی ہے جو کہ تخلیقی اور مسائل کے حل کی صلاحیت کے لیے انتہائی اہم ہوتے ہیں۔

پڑھیے: فیس بک کا زیادہ استعمال نوجوانوں کے لیے خطرناک

ایک نجی کمپنی میں 31 سالہ اسسٹنٹ مینیجر وہاج صدیقی پچھلے 5 سالوں سے انٹرنیٹ کی لت کا شکار ہیں۔ اپنی اس لت کے بارے میں بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ "شروع میں تو میں کام سے واپس آنے کے بعد صرف 2 سے 3 گھنٹے انٹرنیٹ استعمال کرتا تھا جس میں ویڈیو گیمز کھیلتا تھا یا ویب سائٹس براؤز کرتا تھا۔ مگر آہستہ آہستہ یہ وقت بڑھتا گیا اور اب میں 10 سے 12 گھنٹے انٹرنیٹ پر روزانہ کام کے بعد گزارتا ہوں، اس قدر کہ میں رات کو ٹھیک سے سو بھی نہیں سکتا جس کی وجہ سے میں زیادہ تر وقت تھکا ہوا رہتا ہوں۔"

طبی ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کے ٹین ایجرز کی اکثریت انسٹاگرام اور اسنیپ چیٹ پر صحت مند وقت سے کہیں زیادہ وقت گزار رہی ہیں۔ کاروباری خاتون اور ایک 16 سالہ لڑکی کی والدہ نائلہ انیس کہتی ہیں کہ وہ اکثر اپنی بیٹی کو اسمارٹ فون میں مگن دیکھتی ہیں۔ یا تو وہ اپنے دوستوں سے چیٹنگ کر رہی ہوتی ہے یا پھر سیلفیاں اپ لوڈ کر رہی ہوتی ہے۔ نائلہ کی پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ ان کی بیٹی چڑچڑی اور سخت مزاج ہوتی جا رہی ہے جبکہ اسکول میں اس کے گریڈز بھی گر رہے ہیں جو کہ نہایت پریشان کن بات ہے۔

معاملہ صرف بالغوں اور ٹین ایجرز تک محدود نہیں ہے۔ 3 سال سے کم عمر کے بچوں کو بھی اسمارٹ فونز کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ثمینہ کہتی ہیں کہ "اس معاملے میں زیادہ تر قصور والدین کا ہوتا ہے۔ وہ تھکے ہوئے ہوتے ہیں اور اپنے بچوں کے ساتھ کھیلنا نہیں چاہتے۔ اس لیے انہیں پریشان کرنے والے بچوں کو پرسکون کرنے کا آسان ترین طریقہ مل چکا ہے۔ اسمارٹ فون اٹھائیں، کوئی گیم یا کارٹون ڈھونڈیں اور بچے کو پکڑا دیں۔ اور دیکھیں پھر کیسا جادو چلتا ہے۔"

تحقیق مزید کہتی ہے کہ اگر آپ بار بار اپنا فون چیک کر رہے ہیں تو آپ کا سوشل میڈیا پر ہونے والی چیزوں سے تناؤ کا شکار ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ فیس بک اور ٹوئٹر پر سیاسی بحثوں یا کسی کی جسمانی ساخت کا مذاق اڑانے کا زیادہ تر لوگوں پر منفی جذباتی اثر ہوتا ہے، اس قدر کہ لوگوں کو خود کشی کے خیالات تک آنے لگتے ہیں۔ کئی ٹین ایجرز اور بالغان ایسے ہیں جنہوں نے انٹرنیٹ پر مذاق اڑائے جانے پر اپنی زندگیوں کا خاتمہ کیا۔ ماڈل اور ڈیزائنر بننے کی خواہشمند 26 سالہ انعم تنولی کی خود کشی اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ رپورٹس کے مطابق انٹرنیٹ پر اس کو مسلسل تنگ کرنے کی وجہ سے اس نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے علاوہ اس سال کے اوائل میں ڈولی کہلانے والی 14 سالہ ایمی ایوریٹ نے انٹرنیٹ پر مسلسل ہراساں کیے جانے کے بعد خود کشی کر لی۔

اسمارٹ فونز دنیا ہماری انگلیوں پر لے آئے ہیں مگر اس سے افراد کے اندر اینگزائٹی اور ڈپریشن کے احساسات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ نیورو ریگولیشن جریدے میں شائع ایک تازہ تحقیق کے مطابق ڈیجیٹل دنیا کی لت ایک حقیق مسئلہ ہے اور اسمارٹ فونز زیادہ سے زیادہ لوگوں میں اس کی وجہ بن رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیجیٹل لت کے شکار لوگوں میں وہی علامات ہوتی ہیں جو حقیقتاً نشہ کرنے والے افراد میں ہوتی ہیں۔ اس سے 'فونلی نیس' کی صورتحال پیدا ہوئی ہے جو کہ شدید احساسِ تنہائی، اینگزائٹی اور ڈپریشن کے ملے جلے احساسات ہیں۔

اسمارٹ فونز سے چپکے ہوئے لوگوں کو ابھی بھی یہ معلوم نہیں کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی آخر کس طرح انہیں جڑے رہنے اور شرکت کا احساس دلانے کے لیے تیار کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی دلیل دی جاتی ہے کہ اسمارٹ فونز کا استعمال آج کل ضروری ہے تاکہ آپ خود کو دنیا بھر کے حالات و واقعات سے باخبر رکھ سکیں۔ آپ خبریں دیکھ سکتے ہیں یا آفس میں نہ ہوتے ہوئے بھی اپنی ای میلز چیک کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ اپنے خاندان سے جڑے رہنے کا ایک اچھا طریقہ ہے۔

مزید پڑھیے: فیس بک کا زیادہ استعمال بن سکتا ہے حسد و مایوسی کا سبب

ایک پرائیوٹ بینک کی ملازم مہرین فاروق اسمارٹ فونز کے استعمال کے فوائد گنواتے ہوئے کہتی ہیں کہ "میرا شیڈول بہت سخت ہے اور میں جِم جانے کے لیے ٹائم نہیں نکال سکتی۔ مگر یہ مسئلہ نہیں ہے کیوں کہ میں یوٹیوب پر زومبا ایکسرسائز ویڈیوز دیکھ کر گھر پر ہی ورزش کر سکتی ہوں۔ میں چھٹیوں میں گھر پر رہ کر ای میلز چیک کر سکتی ہوں۔ میں واٹس ایپ کے ذریعے بیرونِ ملک مقیم اپنے دوستوں اور رشتے داروں سے باتیں کر سکتی ہوں۔"

سوال یہ ہے کہ اگر یہ آپ کی صحت کے لیے خراب ہے تو لوگ اس لت میں کیوں مبتلا ہیں؟ امبر کے مطابق اس کی بنیادی وجوہات میں سے ایک وہ خوشی اور تسکین کا احساس ہے جو کہ چاکلیٹ کھانے یا کوئی کھیل جیتنے پر ہوتا ہے۔ ثمینہ کہتی ہیں کہ "جب بھی آپ سوشل میڈیا پر کوئی فوٹو پوسٹ کرتے ہیں تو آپ لوگوں سے تعریف کے طلبگار ہوتے ہیں۔"

"چنانچہ جب بھی آپ کو اپنے دوستوں، ساتھیوں یا خاندان کے افراد سے کوئی میسیج یا نوٹیفیکیشن ملے تو آپ کو اچھا لگتا ہے۔ مگر پھر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں دوسروں کو ہراساں کر کے یا ان کا مذاق اڑا کر اچھا لگتا ہے۔ ایسے افراد کے لیے اسکرین پر وہ باتیں کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے جو وہ دوبدو نہیں کر سکتے۔"

امبر نشاندہی کرتی ہیں کہ ایک اور وجہ لوگوں میں مشہور ہونا ہے۔ ڈیجیٹل دنیا میں زیادہ تر افراد آن لائن فورمز پر اس لیے آتے ہیں کیوں کہ وہ عوام کے ایک بڑے گروہ سے قبولیت چاہتے ہیں اور اسمارٹ فونز انہیں یہ موقع فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ لوگ اپنی تنہائی دور کرنے کے لیے بھی اسمارٹ فونز سے جڑے رہتے ہیں۔ امبر کہتی ہیں کہ یہ کسی ایسے شخص کے لیے انتہائی خطرناک ہے جو کہ پہلے ہی ڈپریشن کا شکار ہو۔

تو ڈیجیٹل لت پر قابو کس طرح پایا جا سکتا ہے؟ امبر چھوٹے اقدامات سے شروع کرنے کا مشورہ دیتی ہیں جن میں گھر والوں کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے اپنا فون بند کر دینا، لکھنے، پینٹنگ یا دستکاری جیسے کاموں میں خود کو مصروف کرنا، کسی قریبی پارک یا اپنے باغیچے میں صبح کی چہل قدمی کے لیے بغیر فون کے جانا شامل ہیں۔

امبر کہتی ہیں کہ یہ دوستوں اور خاندانوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ ڈیجیٹل لت میں مبتلا افراد کی مدد کریں تاکہ معاملات کو ٹھیک کیا جا سکے۔ ان سے بات کریں مگر انہیں تنقید کا نشانہ نہ بنائیں، ان کے ساتھ رہیں اور ان کے مشکل وقت میں ان کی مدد کریں۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار کے ایئوس میگزین میں 23 ستمبر 2018 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں