اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے کراچی میں مبینہ پولیس مقابلے میں گولی لگنے سے جاں بحق ہونے والی بچی امل عمر کی موت کی تحقیقات کے لیے سابق جسٹس خلجی عارف کی سربراہی میں کمیٹی قائم کرتے ہوئے 2 ہفتوں میں رپورٹ طلب کرلی۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 10 سالہ بچی امل کی ہلاکت سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی۔

اس دوران ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ ہم نے کمیٹی تشکیل دینے لیے لیے سفارشات پیش کردی ہیں جبکہ نجی ہسپتالوں میں زخمیوں کے علاج کے حوالے سے قوانین بنانے پر بھی عملدرآمد شروع ہوچکا ہے۔

مزید پڑھیں: ایسا لگا جیسے ہماری بچی ہم سے جدا ہوگئی، چیف جسٹس

انہوں نے بتایا کہ آئی جی سندھ نے بھی اقدامات شروع کردیے ہیں، ہمیں 3 ہفتوں کا وقت درکار ہوگا، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ مشق چلتی رہنی چاہیے لیکن ہمیں کمیٹی کے بارے میں بتائیں۔

دوران سماعت عدالتی معاون نے بتایا کہ کمیٹی میں ریٹائرڈ یا حاضر سروس ججز کو شامل کرنے کے بارے میں عدالت خود طے کرے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں ٹراما سینٹر لازمی ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اخلاقیات بھی کوئی چیز ہوتی ہے، ہسپتال نے بچی کو ابتدائی طبی امداد تک نہیں دی، ہم کیوں نہ ہسپتال کی غفلت پر تحقیقات کرائیں۔

دوران سماعت متاثرہ خاندان کے وکیل نے کہا کہ عدالت کے سامنے نجی ہسپتال نے غلط بیانی کی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم مقدمہ درج کروا لیتے ہیں، نجی ہسپتال کا مالک کہاں ہے؟ جس پر ہسپتال عملے نے بتایا کہ وہ بیرون ملک ہیں، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیوں نہ ہم فوجداری تحقیقات کرائیں۔

عدالت میں سماعت دوران امل کی والدہ بینش نے بتایا کہ ہسپتال کا کہنا ہے کہ والدین نے خود بچی کو گاڑی میں منتقل کیا جبکہ یہ دعویٰ غلط ہے، ہسپتال نے خود مجھ سے کہا کہ آپ امل کو اپنی گاڑی میں لے جائیں۔

والدہ امل نے بتایا کہ ہسپتال انتظامیہ نے میری بچی کی موت کا وقت بھی غلط لکھا اور ہسپتال مکمل طور پر غلط بیانی سے کام لے رہا ہے، ہسپتال انتظامیہ نے کہا کہ اگر ہم اسٹاف اور سامان آپ کے ساتھ بھیج دیں تو ہماری ایمرجنسی کا کیا ہوگا؟

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہسپتال کے عملے کو سپریم کورٹ میں جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس معاملے پر ہم سابق جسٹس خلجی عارف کو کمیٹی کا سربراہ بناتے ہیں۔

کمیٹی کے قیام پر متاثرہ خاندان کے وکیل نے اعتراض کیا کہ آئی جی سندھ کو کمیٹی میں شامل نہ کیا جائے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کمیٹی میں پولیس کی طرف سے اے ڈی خواجہ کو شامل کرتے ہیں، تاہم سندھ حکومت کی جانب سے اے ڈی خواجہ کے نام پر اعتراض کیا گیا۔

بعد ازاں عدالت نے امل کی ہلاکت کی تحقیقات کرنے کے لیے سابق جسٹس خلجی عارف کی سربراہی میں 7 رکنی کمیٹی قائم کرتے ہوئے 2 ہفتوں میں رپورٹ طلب کرلی۔

عدالت کی جانب سے قائم کمیٹی میں سینئر پولیس افسر، پی ایم ڈی سی رکن، سینیئر ڈاکٹر اور دیگر نمائندے شامل ہوں گے، جو امل کی موت کیسے اور کیوں ہوئی کی تحقیقات کریں گے۔

امل کیس

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ کراچی کے علاقے ڈیفنس میں پولیس اور ڈکیتوں کے درمیان ہونے والے مبینہ پولیس مقابلے کے دوران امل عمر کو گولی لگی تھی۔

بعد ازاں ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) ساؤتھ جاوید عالم اوڈھو نے اعتراف کیا تھا کہ امل عمر کو لگنے والی گولی پولیس اہلکار کی جانب سے فائر کی گئی تھی۔

امل عمر کو گولی لگنے کے بعد ان کے والدین نے انہیں ایم ایم سی منتقل کیا جہاں طبی امداد دینے سے انکار کیا گیا جس کے بعد وہ دم توڑ گئی تھی۔

مقتولہ کی والدہ بینش عمر نے بتایا تھا ہسپتال انتظامیہ نے انہیں بچی کو جناح ہسپتال یا آغا خان ہستپال منتقل کرنے کو کہا تھا اور این ایم سی نے امل کو منتقل کرنے کے لیے ایمبولینس دینے سے بھی انکار کردیا تھا حالانکہ بچی کے سر پر زخم تھے۔

یہ بھی پڑھیں: امل کیس: مبینہ پولیس مقابلے کے بعد فرار ہونے والا ملزم گرفتار

اس واقعے کے بعد چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے مبینہ پولیس مقابلے کے دوران گولی لگنے سے جاں بحق ہونے والی 10 سالہ امل عمر کے واقع کا ازخود نوٹس لیا تھا۔

ازخود نوٹس کی سماعت کی پہلی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ نجی ہسپتالوں کے لیے بھی کوئی ایس او پی ہونا چاہیے، کوئی ہرجانہ بچی کو واپس نہیں لا سکتا، ایسا لگا جیسے ہماری بچی ہم سے جدا ہوگئی، ایک بچی چلی گئی لیکن باقی بچیاں تو بچ جائیں۔

بعد ازاں چیف جسٹس نے امل کیس میں ذمہ داران کا تعین کرنے کے لیے 2 رکنی خصوصی کمیٹی کا کہا تھا اور اس سلسلے میں سفارشات پیش کرنے کی ہدایت کی تھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں