بھارت میں غیر ازدواجی تعلقات جائز قرار

اپ ڈیٹ 03 اکتوبر 2018
درخواست گزار کے وکیل کلیس ورم راج اور تلسی کے راج فیصلے کے بعد خوشگوار موڈ میں گفتگو کرتے ہوئے—فوٹو: انڈین ایکسپریس
درخواست گزار کے وکیل کلیس ورم راج اور تلسی کے راج فیصلے کے بعد خوشگوار موڈ میں گفتگو کرتے ہوئے—فوٹو: انڈین ایکسپریس

بھارت کی سپریم کورٹ نے تعزیرات ہند یعنی انڈین پینل کوڈ (آئی پی سی) کی دفعہ 497 کو جرم سے نکال دیا، جس کے تحت اب کوئی بھی شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت ایک دوسرے سے جنسی تعلقات قائم کرسکتے ہیں اور انہیں کوئی بھی سزا نہیں دی جاسکے گی۔

چیف جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی 5 رکنی بینچ نے دفعہ 497 پر تاریخی فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر ‘ایڈلٹری’ یعنی شادی شدہ مرد اور خاتون کے درمیان رضامندی کے ساتھ جنسی تعلقات استوار ہوتے ہیں تو اسے جرم نہیں مانا جاسکتا۔

یعنی کوئی بھی مرد کسی بھی غیر محرم شادی شدہ عورت سے جنسی تعلقات قائم کرسکتا ہے، اب اسے سزا نہیں ہوگی، پہلے ایسا کرنے والے مرد کو سزا اور جرمانے کی سزا سنائی جاتی تھی۔

سپریم کورٹ کی 5 رکنی بینچ میں ایک خاتون جج بھی شامل تھیں۔

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق جسٹس دیپک مشرا، جسٹس آر ایف نریمان، اے ایم خان ولکر، ڈی وائے چندریچد اور خاتون جج اندو ملہوترا کے بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ‘کسی بھی شادی شدہ مرد اور شادی شدہ خاتون کے درمیان ماورائے شادی جنسی تعلقات’ استوار کرنے پر شادی تو ختم کی جاسکتی ہے، تاہم اسے جرم قرار نہیں دیا جاسکتا۔

بینچ نے اپنے فیصلے میں تعزیرات ہند کی دفعہ 497 کو انسانی حقوق کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دفعہ 14 اور 21 کے خلاف ہے۔

چیف جسٹس دیپک مشرا کا کہنا تھا کہ اگرچہ شادی شدہ مرد و خواتین کی جانب سے جنسی تعلقات استوار کرنا جرم نہیں، تاہم اگر ان سے کوئی تیسرا شخص یعنی اگر تعلقات استوار کرنے والی خاتون کا شوہر یا پھر مرد کی بیوی متاثر ہوکر خودکشی جیسا سنگین قدم اٹھاتے ہیں تو تعلقات قائم کرنے والے افراد کے خلاف خودکشی کے قوانین کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے۔

سپریم کورٹ کی بینچ نے دفعہ 497 کو خواتین کے خلاف امتیازی سلوک بھی قرار دیا۔

ساتھ ہی عدالت نے یہ ریمارکس بھی دیے کہ غیر ازدواجی جنسی تعلقات شادی کے لیے اچھے ثابت نہیں ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت میں ہم جنسی پرستی کو قانونی حیثیت مل گئی

خیال رہے کہ تعزیرات ہند کی دفعہ 497 کے تحت کسی بھی شادی شدہ مرد اور خاتون کے درمیان جنسی تعلقات جرم تھے،تاہم اس میں سزا صرف مرد کو دی جاتی تھی اور خاتون اس سے بری الذمہ تھی۔

اس دفعہ کے تحت اگر کوئی بھی شادی شدہ مرد کسی ایسی خاتون سے جنسی تعلقات قائم کرتا ہے،جس متعلق اسے شبہ یا پتہ ہو کے وہ کسی اور کی بیوی ہے، وہ قانونی طور پر مجرم ہوگا اور اسے قید یا جرمانہ یا پھر دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔

انڈیا ٹوڈے نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ جنسی تعلقات میں صرف مرد کو ہی مجرم قرار دیے جانے کے خلاف گزشتہ برس اٹلی نژاد بھارتی صنعت کار جوزف شائن نے درخواست دائر کی تھی۔

جوزف شائن نے تعزیرات ہند کو امتیازی قرار دیا تھا۔

انہوں نے عوامی دلچسپی اور اظہار رائے کی بنیاد پر درخواست دائر کرتے ہوئے دفعہ 497 پر نظر ثانی کی اپیل کی تھی۔

ہندوستان ٹائمز کے مطابق تعزیرات ہند میں دفعہ 497 کو کم سے کم 100 سال قبل شامل کیا گیا تھا، تاہم 1971 میں پہلی بار اس میں ترمیم کی تجویز دی گئی تھی، تاہم اس پر عمل نہیں ہوسکا۔

رپورٹ کے مطابق 2003 میں بھی ایک سینئر جج نے اس دفعہ پر نظرثانی کی سفارش کی تھی۔

سماعت کے دوران بھارتی حکومت نے اپنے مؤقف میں کہا کہ اگر دفعہ 497 کو جرم سے نکال دیا جاتا ہے تو اس کے ہندوستانی سماج، شادی اور خاندان پر اثرات پڑیں گے۔

بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے شادی شدہ مرد و خواتین کو جنسی تعلقات کی اجازت دینے کے حوالے سے یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا جب کہ 3 ہفتے قبل ہی عدالت نے ‘ہم جنس پرستی’ کو قانونی قرار دیا تھا۔

بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے ‘جنسی تعلقات’ کو جرم سے نکالے جانے کے فیصلے پر فوری طور پر سماجی تنظیموں کی جانب سے رد عمل سامنے نہیں آیا، تاہم خیال کیا جا رہا کہ تمام مذہبی تنظمیوں اور گروپوں کی جانب سے اس کی مخالفت کی جائے گی۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بھارت میں غیر شادی شدہ بالغ مرد اور عورت کی جانب سے جنسی تعلقات استوار کرنا جرم نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

اسد اقبال Sep 27, 2018 04:24pm
بھارت کا معاشرہ تباہی کی طرف بڑھتے ہوے ایک قدم اور آگے۔