صوبہ بلوچستان میں قحط سالی کے سبب غذائی قلت خطرناک شکل اختیار کر گئی ہے اور صوبے میں 52فیصد بچوں کی صحیح نشوونما نہیں ہو سکی جبکہ بچوں کی اموات کی شرح بھی بقیہ صوبوں کے مقابلے میں بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔

نیشنل نیوٹریشن سیل کی جانب سے صوبے میں کیے گئے سروے کے مطابق رقبے کے اعتبار سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ بدترین غذائی قلت کا شکار ہے۔

مزید پڑھیں: ‘بلوچستان کے لوگوں کو سی پیک منصوبے میں جائز حق دلوائیں گے'

بلوچستان نیوٹریشن سیل کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر علی ناصر بگٹی نے بتایا کہ کہ ماؤں اور بچوں میں غذائی قلت کے سبب صوبے میں بچوں کی اموات کی شرح دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 16فیصد بچوں کی صحیح طریقے سے نشونما نہیں ہو پا رہی بلکہ 40فیصد بچوں کے وزن اپنی عمر کے حساب سے کم ہیں اور یہ اعدادوشمار بلوچستان میں صحت عامہ کی خطرناک صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں۔

حکومت بلوچستان نے صوبے میں غذائی قلت کے خاتم کے لیے عالمی بینک اور یونیسیف کے تعاون سے ایک نیوٹریشن سیل کا آغاز کیا ہے۔

بلوچستان رورل سپورٹ فنڈ کے چیف ایگزیکٹو نادر بلوچ بریچ غذائیت کے مسئلے کو حل کرنے کی اشد ضرورت ہے اور اس سلسلے میں پینے کے صاف پانی، صحت عامہ اور حفظان صحت تک رسائی کے ساتھ ساتھ فوڈ سپلیمنٹ کی فراہمی کی بھی ضرورت ہے۔

کوئٹہ سمیت بلوچستان کے اکثر علاقوں کو شدید خشک سالی کا سامنا ہے جس کے سبب زراعت اور لائیو اسٹاک کے شعبے کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان: تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ایمرجنسی نافذ

سروے کے مطابق صوبے کی 49فیصد خواتین کو غذائی قلت کا سامنا ہے، 49فیصد دوران حمل خون کی کمی، پانچ سال سے کم عمر 57فیصد بچے خون کی کمی کا شکار ہیں جبکہ 29فیصد خواتین کو آیوڈین کی کمی کا سامنا ہے۔

بلوچستان نیوٹریشن سیل کے لیے کام کرنے والی ڈاکٹر سبینہ بلوچ نے بتایا کہ خوراک کی فراہمی کے ساتھ ان مسائل کے حل کے لیے دیہی خواتین کو آگاہی دینے کی بھی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ قحط سالی کے اثرات میں کمی اور غذائی قلت جیسے مسائل کے حل کے لیے حکومت نے عالمی بینک اور ایجنسیوں کے تعاون سے ابتدائی طور پر بلوچستان کے سات اضلاع پنجگور، سبی، کوہلو، خاران، نوشکی، قلعہ سیف اللہ اور ژوب میں اس پروگرام کا آغاز کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں