ملتان: عدالت نے ماڈل قندیل بلوچ کو قتل کرنے والے مرکزی ملزم اور بھائی وسیم کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست خارج کر دی۔

ملتان کے ڈسٹرکٹ انیڈ ایڈیشنل سیشن جج سردار اقبال ڈوگر نے ملزم کی درخواست پر اپنا فیصلہ سنایا۔

یہ بھی پڑھیں: ماڈل قندیل بلوچ 'غیرت کے نام' پر قتل

اس حوالے سے بتایا گیا کہ مقدمے کے مرکزی مدعی اور قندیل بلوچ کے والد عظیم ماہڑہ نے ملزم کو معاف کرنے کا بیان حلفی جمع کروا دیا ہے۔

واضح رہے کہ ماڈل قندیل بلوچ کو ان کے بھائی نے گذشتہ برس 15 جولائی 2017 کو مبینہ طور پر غیرت کے نام پر قتل کردیا تھا۔

تھانہ مظفر آباد میں 16 جولائی 2017 کو مقدمہ درج ہوا اور اسی دن ملزم وسیم نے قتل کے ایک روز بعد پولیس کو خود گرفتاری پیش کی تھی۔

اس حوالے سے بتایا گیا کہ کیس کے مدعی اور قندیل بلوچ کے والد عظیم ماہڑہ کی جانب سے ملزم کو معاف کیا گیا تو سرکار باضابطہ کیس کی پیروی کرے گی، قندیل بلوچ کے قتل میں پولیس بھی مدعی ہے۔

مزیدپڑھیں: قندیل بلوچ قتل کیس: پولیس کو 4 روز میں چالان پیش کرنے کی ہدایت

قبل ازیں 18 جولائی کو کیس کی تفتیش کرنے والے سینئر پولیس آفیسر نے ڈان کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ قتل کے مقدمے میں پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعات 305 اور 311 بھی شامل کردی گئی ہیں۔

ماڈل قندیل بلوچ کے قتل کی ایف آئی آر کو ’ناقابل معافی‘ ایف آئی آر میں تبدیل کردیا گیا، جس کے بعد مقتولہ کے والدین ان کے قاتل بھائی کو معاف نہیں کرسکیں گے۔

قندیل بلوچ کا قتل

فیس بک ویڈیوز سے شہرت حاصل کرنے والی ماڈل قندیل بلوچ کو ان کے بھائی نے گذشتہ برس 15 جولائی کو مبینہ طور پر غیرت کے نام پر قتل کردیا تھا، جس کے بعد پولیس نے ماڈل کے بھائی وسیم کو مرکزی ملزم قرار دے کر گرفتار کیا تھا اور بعدازاں ان کے کزن حق نواز نے بھی گرفتاری دے دی تھی۔

دوسری جانب فیس بک اسٹار قندیل بلوچ کے ساتھ متنازع سیلفیز کو جواز بناکر ان کے والد عظیم کی درخواست پر رویت ہلال کمیٹی کے سابق رکن مفتی عبدالقوی کو بھی ضابطہ فوجداری کی دفعہ 109 کے تحت اعانت جرم کے الزام میں مقدمے میں نامزد کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ’قندیل بلوچ کا قتل مفتی عبدالقوی کی ایما پر ہوا‘

واضح رہے کہ قندیل بلوچ کے قتل سے کچھ عرصہ قبل ان کی مفتی عبدالقوی کے ساتھ متنازع سیلفیز سامنے آئی تھیں، جنہوں نے سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا کردیا تھا۔

قندیل بلوچ قتل کیس کی پیروی کے دوران 3 تفتیشی افسران کو ناقص تفتیش کرنے پر معطل کیا جاچکا ہے جبکہ واقعے کو ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی مقدمے کا حتمی چالان پیش نہیں کیا جا سکا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں