یروشلم: اسرائیل نے غیر واضح الزامات پر بغیر کسی مقدمے کے 13 ماہ تک قید رہنے والے فلسطینی نژاد فرانسیسی وکیل کو رہا کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 33 سالہ صلاح حموری کو اسرائیل کے نقب صحرا سے لائے جانے کے بعد یروشلم پولیس ہیڈ کوارٹرز سے رہا کیا گیا۔

اس حوالے سے اٹارنی محمد حسن کا کہنا تھا کہ صلاح حموری کو آئندہ 30 دن تک کسی بھی طرح کے مظاہرے یا اپنی رہائی کی خوشی منانے سے منع کیا گیا ہے اور انہیں 825 ڈالر بھی ادا کرنا ضروری ہوں گے۔

مزید پڑھیں: فلسطینی مزاحمت کی علامت عھد تمیمی

واضح رہے کہ صلاح حموری کو مشرقی یروشلم سے 23 اگست 2017 کو گرفتار کیا گیا تھا اور بعد میں انہیں اسرائیل کی انتظامی حراست میں رکھا گیا تھا، جس میں مقدمے کے بغیر قابل تجدید 6 ماہ قید میں رکھ سکتے ہیں۔

دوسری جانب حموری کی قید کے حوالے سے نہ تو متاثرہ شخص کو اور نہ ہی ان کے وکیل کو بتایا گیا تھا کہ انہیں کس وجہ سے حراست میں لیا گیا جبکہ اسرائیل کی مقامی انٹیلی جنس ایجنسی بھی اس بارے میں کوئی تبصرہ کرنے سے گریزاں تھی۔

رہائی کے بعد گفتگو کرتے ہوئے صلاح حموری کا کہنا تھا کہ ’آزادی ایک ناقابل بیان احساس ہے‘، تاہم جب وہ قید میں تھے تو فرانس نے ان کی رہائی کے لیے موثر کوششیں نہیں کیں۔

انہوں نے کہا کہ ’اسرائیلی جیلوں میں قید کا نظام مشکل ہے، اسرئیلی ہماری خواہشات اور ہمیں سماج اور خاندان سے الگ کرنے کے لیے ہر کوشش کرتے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’دوران قید ان کا اپنی بیوی اور بچے سے رابطہ نہیں کرایا گیا جبکہ اسرائیل نے فرانس میں مقیم ان کی بیوی کی ویزا کی درخواست بھی مسترد کردی تھی‘۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی عدالت میں نابالغ فلسطینی لڑکی کے بند کمرہ فوجی ٹرائل کا آغاز

ادھر جب فرانس میں موجود صلاح حموری کی اہلیہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ اسرائیل حکام نے ان کے شوہر کو فلسطین کی آزادی کے لیے مقبول تحریک سے تعلق رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا کیونکہ اسرائیل، امریکا اور یورپی یونین کی جانب سے اس تحریک کو دہشت گرد گروپ کی فہرست میں رکھا ہے۔

فرانسیسی وزیر خارجہ کے مطابق صدر ایمانوئل میکرون اور وزیر خارجہ چین یوس نے کئی مرتبہ اس معاملے پر اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے تبادلہ خیال کیا تھا۔

صلاح حموری کی قید کے حوالے سے اسرائیل کا کہنا تھا کہ انتظامی قید اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ ثبوت جمع کرنے اور اس مقصد سے کہ ملزم مزید جرم نہ کرے، انتظامیہ اسے قید میں رکھ سکتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں