نیپال کی حکومت نے ملک میں بڑھتے ہوئے جنسی تشدد کے واقعات کی روک تھام کے لیے ملک میں پورن سائٹس کو بند کرنے کا حکم دے دیا۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق نیپالی حکومت کے اس اقدام کو سماجی تنظیموں کے رضاکاروں نے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مضحکہ خیز اور خیر مؤثر قرار دیا ہے۔

خیال رہے کہ حکومت کا یہ اقدام رواں سال جولائی میں ایک 13 سالہ لڑکی کے ریپ اور قتل کے بعد رد عمل کے طور پر سامنے آیا ہے، جس کے خلاف قومی سطح پر سخت غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: ہندوستان نے پورن سائٹس پھر کھول دیں

13 سالہ لڑکی کے ریپ اور قتل کے بعد حکومت کی جانب سے اقدامات نہ اٹھائے جانے پر نیپال میں احتجاج اور پُر تشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا جس میں ایک شخص ہلاک اور ایک درجن کے قریب افراد زخمی ہوگئے تھے۔

بعد ازاں حکومت نے مذکورہ مظاہروں کو حکمراں جماعت کے خلاف سازش سے منسوب کیا تھا۔

حکومت نے گزشتہ ہفتے ان پر اس حوالے سے ہونے والی تنقید کے رد عمل میں ملک میں 'کریک ڈاؤن' کا آغاز کرتے ہوئے انٹرنیٹ پر موجود پورنوگرافی اور قابل اعتراض مواد پر پابندی لگا دی تھی۔

حکومت کے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ 'پورن اور قابل اعتراض مواد تک آسان رسائی کے باعث ہمارے معاشرے کی سماجی اقدار اور سماجی ہم آہنگی متاثر ہورہی ہیں اور اس سے جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: چائلڈ پورنوگرافی جرم قرار

ادھر رپورٹ میں کہا گیا کہ حکومت کی جانب سے جن پورن سائٹس پر پابندی لگائی گئی، ان کی فہرست ٹیلی کام حکام کو فراہم کردی گئی ہے جبکہ اسے عوام سطح پر لانے سے منع کیا گیا، لیکن اس فہرست میں شامل بیشتر سائٹس تاحال قابل رسائی ہیں اور یہ اب تک واضح نہیں ہوسکا کہ پابندی پر عمل درآمد کیا گیا ہے یا نہیں۔

خیال رہے کہ نیپال کے ٹیلی کام حکام کا کہنا تھا کہ ملک کی صرف 60 فیصد آبادی انٹرنیٹ کا استعمال کرتی ہے، جس کے بعد جنسی تشدد کے خلاف اقدامات پر سوال اٹھ رہے ہیں۔

دوسری جانب ملک میں انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنے والی کمپنی ویانیٹ یا Vianet کے سی ای او بینایا بھوہارا نے خبردار کیا کہ حکومت کے احکامات پر عمل درآمد کرانا مشکل ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق بینایا بھوہارا کا کہنا تھا کہ 'متعلقہ سائٹس تک رسائی حاصل کرنے کے اور بہت سے طریقہ کار ہیں اور یہ اقدام زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوگا'۔

مزید پڑھیں: ڈنمارک: برہنہ ویڈیو شیئر کرنے والے افراد کیخلاف قانونی کارروائی

حکومت کے حالیہ اقدام پر ملک میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کی رضا کار موہنا انصاری کا کہنا تھا کہ حکام 'حیقیت سے آنکھیں چرا رہے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ خواتین کو انصاف کی فراہمی میں درپیش روکاوٹوں کا ہے، جو پولیس کو گھریلو تشدد اور جنسی تشدد کے حوالے سے شکایت درج کروانے جاتی ہیں۔

واضح رہے کہ جولائی میں 13 سالہ لڑکی کے ریپ اور قتل کے واقعہ کے بعد ملک میں جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا، گزشتہ 2 ماہ میں ریپ اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے 4 سو 79 کیسز رپورٹ ہوئے، جو 2008 اور 2009 میں رپورٹ ہونے والے مجموعی کیسز سے کئی گنا زیادہ ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں