کوئٹہ: وزیر خزانہ بلوچستان میر عارف جان محمد حسنی نے کہا ہے کہ صوبہ بلوچستان کو شدید مالی بحران کا سامنا ہے اور خبردار کیا کہ اگر اسلام آباد نے صوبے کو بیل آؤٹ دینے کے سلسلے میں اقدامات نہیں کیے تو صورتحال مزید سنگین ہوجائے گی۔

صوبائی وزیر اطلاعات میر ظہور احمد بلیدی اور سیکریٹری نورالحق امین مینگل کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ موجودہ بجٹ میں صوبے کا خسارہ 75 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔

بلوچستان حکومت ہفتے کو وزیر اعظم عمران خان کے دورہ کوئٹہ کے موقع پر یہ معاملہ اٹھانے کا ارادہ رکھتی ہے، صوبائی وزیر خزانہ نے گزشتہ حکومت کی مالی بے ضابطگیوں اور بدترین حکومتی معاملات کو بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

یہ بھی پڑھیں: ریکوڈک کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کریں گے، وزیراعلیٰ بلوچستان

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس مالی سال 19-2018 کے لیے بلوچستان کی تاریخ کا سب سے مہنگا، 3 سو 52 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا جس میں 88 ارب روپے سالانہ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس پی ڈی) کےلیے رکھے گئے۔

ان کا مزید کہنا تھا 75 ارب روپے کے خسارے کے ساتھ ہمیں 75 ارب روپے سے زیادہ پی ایس پی ڈی کے لیے خرچ کرنے ہیں۔

صوبے کو درپیش مالی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ ہمارے لیے خاصا مشکل ہے جس کے لیے ہم اسلام آباد سے مدد حاصل کریں گے۔

مزید پڑھیں: چینی کمپنی کی بلوچستان کے معدنی وسائل کو ترقی دینے کی پیشکش

انہوں نے کہا کہ یہ پی ایس ڈی پی کس طرح بنایا گیا یہ سب کو معلوم ہے، حکومت کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ اسےٹھیک کرنے کے لیے کابینہ کے 3 اجلاس بلائے۔

ان کا کہنا تھا کہ متعدد اسکیمیں منصوبے سے خارج کردی گئی ہیں اور وزیراعلیٰ کی ٹیم دیگر تمام منصوبوں کا بھی اس حوالے سے جائزہ لے رہی ہے کہ آیا وہ عوام کے لیے فائدہ مند ہے یا نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ جو کوئی بھی عوامی مفاد کے برخلاف محض پیسہ بنانے کے لیے اسکیم کی منظوری دینے کا ذمہ دار ہوگا اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: ‘بلوچستان کے لوگوں کو سی پیک منصوبے میں جائز حق دلوائیں گے‘

صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ جام کمال خان نے اپنے صوابدیدی فنڈ سے دستبرداری کا فیصلہ کیا ہے جبکہ گزشتہ برس سابق وزیراعلیٰ نے 8 کروڑ 30 لاکھ روپے کا صوابدیدی فنڈ استعمال کیا۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ 8 برسوں کے دوران این ایف سے ایوارڈ کی مد میں صوبے کو 3 سو 50 ارب روپے ملے جنہیں معدنیات کی تلاش اور سیاحت پر ضائع کردیا گیا اور اس کا کوئی فائدہ بھی حاصل نہیں ہوا۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا موجودہ حکومت صوبے میں آبی حیات، مویشیوں، معدنیات اور سیاحتی شعبے کو فروغ دینے کا ارادہ رکھتی ہے، جو ریونیو حاصل کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔

مزید پڑھیں؛ بلوچستان: سرکاری اسکولوں کے اساتذہ ریاضی میں ’فیل‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ تعلیم کے بعد صوبائی حکومت سب سے زیادہ اخراجات لوگوں کے تحفظ کے لیے امن وعامہ پر کرتی ہے جس کے باعث صحت کا شعبہ بھی کبھی کبھی نظر انداز ہوجاتا ہے، گزشتہ حکومتوں نے سندھ اور پنجاب کی طرح ریونیو بورڈ جیسا کوئی ادارہ تشکیل نہیں دیا۔

انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ بلوچستان ملک کا مستقبل ہے اور ہماری حکومت صوبے کو درپیش تمام مسائل حل کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کرے گی۔


یہ خبر 6 اکتوبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں