سعودی صحافی لاپتہ: ترکی کا سعودی قونصل خانے کی تلاشی کا فیصلہ

09 اکتوبر 2018
سعودی صحافی قونصلیٹ میں داخل ہورہے ہیں —فوٹو : اے پی
سعودی صحافی قونصلیٹ میں داخل ہورہے ہیں —فوٹو : اے پی

ترکی نے لاپتہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی سے متعلق تحقیقات کے لیے استنبول میں قائم سعودی قونصلیٹ کی تلاشی کا فیصلہ کرلیا۔

خبر رساں ادارے ’اے پی ‘ کی رپورٹ کے مطابق ترکی کی وزارت خارجہ کے ترجمان حامی اکسوئے نے ایک بیان میں بتایا ہے کہ سعودی حکام ترکی سے ہر قسم کے تعاون کے لیے تیار ہیں اور قونصل خانے کی عمارت کی تلاشی کی اجازت بھی دیں گے۔

تاہم وزارت خارجہ کی جانب سے نہیں بتایا گیا کہ سعودی قونصل خانے کی تلاشی کا عمل کب شروع کیا جائے گا اور سعودی عرب کی جانب سے بھی کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔

مزید پڑھیں : سعودی عرب ثابت کرے لاپتہ صحافی قونصل خانے سے چلے گئے تھے،اردوان

ترکی کی جانب سے یہ اعلان اس وقت سامنے آیا جب امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اس وقت کی تصویر شائع کی جب جمال خاشقجی استنبول میں قائم سعودی قونصلیٹ میں داخل ہورہے تھے۔

مزید برآں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیشن کی ترجمان روینا شام داسانی کا کہنا تھا کہ اگر جمال خاشقجی کے قتل کی اطلاعات کی تصدیق ہوگئی تو یہ سچ میں حیران کن ہوگا۔

جنیوا میں اقوام متحدہ کی بریفنگ کے دوران روینا شامداسانی کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کمیشن کی جانب سے ترکی اور سعودی عرب کو ایک دوسرے سے تعاون کرنے اور غیر جانبدارانہ اور آزادانہ تحقیقات کرنے پر زور دیا جارہا ہے۔

آخری فوٹیج

واشنگٹن پوسٹ کی جانب سے شائع کی گئی سی سی ٹی وی تصویر میں سعودی قونصلیٹ میں داخل ہونے کے وقت اور تاریخ کے ساتھ جمال خاشقجی کا نام بھی درج ہے۔

واشنگٹن پوسٹ نے تصویر سے متعلق بتایا کہ ’ تحقیقات سے قریبی طور پر وابستہ ایک شخص نے یہ تصویر شئیر کی تھی‘۔

تصویر میں دکھائے گئے جس دروازے سے خاشقجی داخل ہوئے یہ استنبول میں واقع قونصلیٹ کا مرکزی دروازہ معلوم ہورہا ہے، علاقہ بنیادی طور پر شہر کے مالیاتی مرکز کے قریب واقع ہے اور یہاں دیگر قونصل خانے بھی موجود ہیں۔

یہ واضح نہیں کہ کیمرے کی فوٹیج کہاں سے آئی تاہم قونصلیٹ کے علاقے میں متعدد سی سی ٹی وی کیمرے موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : ترکی میں سعودی سفارتخانے سے صحافی کی گمشدگی پر احتجاج

واشنگٹن پوسٹ کے اداراتی صفحہ کے مدیر فریڈ ہیاٹ نے ایسوسی ایٹد پریس کو بتایا کہ ’ اگر جمال خاشقجی کے قتل کی اطلاعات سچ ہیں تو ترک حکام کے پاس اس سچ پر مبنی ویڈیو اور دیگر دستاویزات موجود ہوں گی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ سعودی عرب کا مؤقف ہے کہ وہ نصف گھںٹے کے بعد ہی قونصل خانے کے باہر چلے گئے تھے ، اگر یہ سچ ہے تو انہیں اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے حقائق پر مبنی ثبوت لانے چاہئییں۔‘

فریڈ ہیاٹ کا کہنا تھا کہ ’ حکومت کی جانب سے بیرون ملک قائم سفارت خانے میں اپنے ہی ملک کے شہری کو اپنے خیالات کے پُر امن اظہار کی وجہ سے قتل کرنے کا خیال ناقابلِ تصور ہے ۔‘

خیال رہے کہ اس سے قبل ترک صدر رجب طیب اردوان نے سعودی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ کہ ثابت کیا جائے کہ سعودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے والے لاپتہ صحافی جمال خاشقجی استنبول میں قائم سعودی قونصلیٹ سے واپس چلے گئے تھے۔

سعودی عرب نے ترکی کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا لیکن گزشتہ سات روز میں جمال خاشقجی کے قونصل خانے سے باہر جانے سے متعلق ایک بھی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھیں : سعودی حکومت کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے والا صحافی 'ترکی سے لاپتہ'

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ صحافی جمال خاشقجی گزشتہ ہفتے 2 اکتوبر کو اس وقت لاپتہ ہوگئے تھے جب وہ ایک ترک خاتون سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کی غرض سے سعودی قونصل خانے میں مطلوبہ دستاویزات کے حصول کے لیے گئے تھے۔

دوسری جانب پولیس ذرائع کا کہنا تھا کہ گزشتہ ہفتے کے اختتام پر تقریباً 15 سعودی ، جن میں افسران بھی شامل تھے، 2 پروازوں سے استنبول آئے اور اس وقت وہ تمام افراد قونصل خانے میں موجود تھے جب جمال خاشقجی وہاں گئے۔

ترک حکومتی ذرائع نے فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ پولیس کو یقین ہے کہ صحافی کو اسی خصوصی ٹیم نے قتل کیا جو استنبول بھیجی گئی تھی اور اسی روز واپس بھی روانہ ہوگئی تھی۔

تاہم سعودی عرب نے مذکورہ الزام کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ جمال خاشقجی قونصل خانے سے واپس چلے گئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں