اسرائیل نے فلسطینی قیدیوں کے لیے جیل کے معیارات کم کرنے کا فیصلہ کرلیا، جس کے باعث اسرائیلی جیلوں کے اندر اور باہر مظاہروں کی ایک نئی لہر پیدا ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔

پریس ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی میڈیا نے بتایا کہ اسرائیل پبلک سیکیورٹی کے وزیر گیلاڈ اردن کی تشکیل کردہ کمیٹی اپنی تحقیقات کے نتائج کی بنیاد پر فلسطینی قیدیوں کے معیارِ زندگی کو کم کرنے کے طریقے تلاش کرے گی۔

رواں برس جون میں مذکورہ کمیٹی بنائے جانے کے موقع پر گیلاڈ اردن کا کہنا تھا کہ ان کا مقصد حماس اور دیگر فلسطینی مزاحمتی گروہوں کو غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوجیوں کی باقیات کا کنٹرول واپس لینے کے لیے ان پر دباؤ ڈالنا ہے۔

اس مقصد کے تحت یہ کمیٹی فلسطینی قیدیوں سے اہلِ خانہ کی ملاقاتوں میں کمی اور جیل سے باہر گوشت، مچھلی، پھل اور سبزیاں خریدنے کی اجازت واپس لینے کی تجویز دے گی۔

مزید پڑھیں: بھوک ہڑتال کرنے والے فلسطینی قیدی کی رہائی کا مطالبہ

اس کے ساتھ ہی فلسطینی قیدیوں سے جیل میں کھانا پکانے کا حق بھی چھین لیا جائے گا جبکہ حکام ان کے فوڈ گرائنڈرز اور بلینڈر بھی واپس لے لیں گے۔

اسرائیلی جیل کے حکام تجویز دیں گے کہ تل ابیب قیدیوں کے لیے موجودہ ٹیلی ویژن چینل کی فہرست کو بھی محدود کرے۔

علاوہ ازیں ’وارڈ ترجمان‘ کا عہدہ بھی ختم کردیا جائے گا جس کا مطلب ہے کہ قیدیوں کے نمائندے کو جیل حکام سے صرف چند محدود مسائل سے متعلق بات کرنے کی اجازت ہوگی۔

اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیل ’مشتبہ دہشت گردوں‘ کے لیے قید کی سزاؤں کو کم از کم 40 سے 60 سال تک بڑھانے کے لیے بل پیش کرنے پر غور کررہا ہے۔

اسرائیل کی رائٹ ونگ پارٹی، جس کے صدر وزیر برائے ملٹری امور ایوگ ڈور لبر مین ہیں، ان مقدمات کے لیے عدالت کی جانب سے سزائے موت کا استعمال آسان بنانے کے لیے ایک علیحدہ بل پیش کرنے کا سوچ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : اسرائیل کی قید میں سیکڑوں فلسطینیوں کی بھوک ہڑتال

حالیہ چند سالوں میں فلسطینی قیدیوں کے ساتھ اسرائیلی حکام کے ظالمانہ رویے کے باعث قیدیوں کی جانب سے بھوک ہڑتال کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں تاکہ اسرائیلی حکام مجبور ہوں اور ان کے مسائل سے متعلق بین الاقوامی آگاہی پیدا کی جاسکے۔

گزشتہ برس سیکڑوں قیدیوں نے مروان برغوطی (قیدی) کے اعلان پر بھوک ہڑتال کی تھی، جو 40 روز تک جاری رہنے کے بعد آخر کار اسرائیلی حکام ان کے ساتھ معاہدے پر آمادہ ہوگئے تھے۔

تاہم قیدیوں کا کہنا تھا کہ اس ڈیل میں ان کے 80 فیصد مطالبات منظور ہوئے تھے۔

فلسطینی قیدیوں کے حامی گروہ ادامیر کے جونری کے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل کی جیلوں میں اس وقت تقریباً 6 ہزار 5 سو افراد قید ہیں۔

فلسطین کا نیا قانون تباہ کن

ادھر یروشلم پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق فلسطینیوں کی حفاظت سے متعلق فلسطینی اتھارٹی نے گزشتہ برس ایک قانون پاس کیا تھا، جس پر فلسطینی برادری کی جانب سے اکثر نے مزاحمت کی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ غیر منصفانہ ہے کیونکہ ایک غیر مستحکم ماحول میں اسے باقاعدہ قانونی کارروائی کے بغیر پاس کیا گیا تھا۔

اس قانون کی مخالفت کرنے والے گروہ نیشنل سوشل سیکیورٹی موومنٹ (این ایس ایس ایم) کا کہنا تھا کہ نیا قانون ایک ’تباہی‘ ہے جو تاریک کمرے میں تیار کیا گیا۔

فلسطینی سیاسی تجزیہ کار حنا عیسی کا کہنا تھا کہ نئے قانون کی شرائط کا از سر نو جائزہ لیا جانا چاہیے کیونکہ یہ فلسطینی معاشرے کو متاثر کرے گا۔

مزید پڑھیں : اسرائیل کی معاہدے پر رضامندی،فلسطینی قیدیوں کی بھوک ہڑتال ختم

ال دباب سی نے کہا کہ نیا قانون بیواؤں کو اپنے سابقہ شوہر کی پنشن لینے سے روکتا ہے جو ایک طریقے سے ان خواتین کو دوبارہ شادی کرنے سے منع کرنے کے برابر ہے۔

علاوہ ازیں یہ قانون یتیموں کو تعلیم مکمل ہونے کے بعد والدین کی پنشن لینے سے روک رہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کبھی کالج سے پاس نہ ہوں۔

انہوں نے وضاحت دی کہ یہ قانون فلسطین کی تجارت پر بھی منفی اثرات مرتب کرے گا۔

چند روز قبل فلسطین کے وزیر محنت نے انسانی حقوق کی تنظیموں کو بتایا تھا کہ نیا سیکیورٹی قانون جلدی میں نہیں بلکہ تمام حالات کو دیکھ کر بنایا گیا۔

انہوں نے اس بات کی تصدیق بھی کی تھی نئے قانون کا اطلاق رواں برس نومبر سے ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ سوشل سیکیورٹی کا قانون قومی سلامتی کا منصوبہ ہے جس کے تحت فلسطینی شہری اپنے ملک میں ایک محفوظ اور بہتر زندگی گزار سکیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں