اسرائیل کی قید میں موجود سیکڑوں فلسطینیوں نے بھوک ہڑتال کا آغاز کردیا۔

اس بھوک ہڑتال کو قیدیوں رہنما نے فلسطینیوں کی ’آزادی کا طویل سفر‘ میں نیا قدم قرار دیا۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے پی‘ کے مطابق سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ نام نہاد سیکیورٹی قیدیوں کے نام اسرائیل کی جانب سے گرفتار کیے گئے تقریباً ساڑھے 6 ہزار فلسطینیوں میں سے ایک ہزار 500 سے زائد قیدی اس غیر معینہ مظاہرے میں شامل ہیں اور یہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران سب سے بڑی ہڑتال ہے۔

بھوک ہڑتالیوں کے فوری مطالبات میں رشتہ داروں سے زیادہ ملاقات کی اجازت دینے اور اسرائیل کی جانب سے ٹرائل کے بغیر حراست میں لیے جانے کے واقعات کے خاتمے کے مطالبات شامل ہیں۔

مغربی کنارے اور غزا میں پیر کے روز فلسطینی علاقوں میں ’قیدیوں کا دن‘ منانے کے لیے ہزاروں افراد نے یکجہتی مارچوں میں شرکت کی۔ اس بھوک ہڑتال کی قیادت فلسطینی صدر محمود عباس کی فتح تحریک کے سرکردہ رہنما ماروان برگھوتی کر رہے ہیں۔

کئی سالوں سے ہونے والی رائے شماری سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماروان برگھوتی، محمود عباس کے بعد ان کے جانشین کے طور پر فلسطینیوں کا پہلا انتخاب ہوں گے۔

ماروان برگھوتی کو 2002 میں فلسطین کے پرتشدد مظاہروں کے دوران گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر قتل کے کئی مقدمات میں فرد جرم بھی عائد کی گئی۔

اسرائیل ماروان برگھوتی پر اس کے شہریوں کے خلاف خودکش بم حملوں کا الزام لگاتا ہے، جس پر انہیں 5 بار عمر قید کی سزا سنائی جاچکی ہے۔

پِریزن سروس کے ترجمان اَصاف لِبراتی نے اس بھوک ہڑتال میں ماروان برگھوتی کے کردار سے متعلق وضاحت سے انکار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہڑتال کا فیصلہ قیدیوں کا ہے اور ہم اس سے پیدا ہونے والی صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں۔‘

تبصرے (0) بند ہیں