پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے سپریم کورٹ آف پاکستان کی ہدایات کی روشنی میں 2014 میں پیش آنے والے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) سانحے کی تفتیش کے لیے جسٹس محمد ابراہیم خان پر مشتمل کمیشن تشکیل دے دیا۔

16 دسمبر 2014 کو سانحہ اے پی ایس میں طلبا سمیت 140 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے 5 اکتوبر کو پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیشن تشکیل دینے کا حکم دیا تھا۔

پشاور ہائی کورٹ کے رجسٹرار خواجہ وجیہ الدین کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ ‘سپریم کورٹ آف پاکستان نے 5 اکتوبر 2018 کو اے پی ایس پشاور کے حوالے سے انسانی حقوق مقدمہ نمبر 18200-کے 2018 کی سماعت کے دوران حکم دیا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ کے سینئر جج پر مشتمل کمیشن تشکیل دے دیا جائے جو درخواست گزاروں کی شکایات پر معاملے کی تفتیش کرے’۔

مزید پڑھیں:آرمی پبلک اسکول ازخود نوٹس:سپریم کورٹ کا تحقیقات کیلئے کمیشن بنانے کا حکم

سپریم کورٹ کے حکم کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ‘کمیشن کو 5 اکتوبر 2018 کو حکم جاری ہونے کے بعد 6 ہفتوں کے اندر رپورٹ جمع کرنا ہوگی’۔

نوٹی فکشین میں کہا گیا ہے کہ اس مقصد کے لیے جسٹس محمد ابراہیم خان کو کمیشن کے طور پر مقرر کیا گیا ہے۔

جسٹس ابراہیم خان 11 اگست 2016 کو ایڈیشنل جج کے طور پر آئے تھے اور یکم جون 2018 کوباقاعدہ طور پر ہائی کورٹ کے جج تعینات ہوئے تھے۔

انہوں نے عدلیہ میں بحیثیت ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اور سیشن جج کے طور نومبر 1993 میں قدم رکھا اور اس دوران انہوں نے کئی اہم عدالتی عہدوں پر فرائض انجام دیے اور مختلف اضلاع میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج رہے۔

جسٹس ابراہیم خان نے پشاور میں احتساب عدالت کے جج کے طور پر خدمات انجام دیں۔

یہ بھی پڑھیں:آرمی پبلک اسکول حملہ: سپریم کورٹ کا وفاقی اور صوبائی حکومت کو نوٹس

یاد رہے اے پی ایس سانحے میں 122 طلبا سمیت 144 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے رواں سال اپریل میں اپنے پشاور کے دورے میں جاں بحق ہونے والے کئی طلبا کے والدین کی درخواستوں اور ان کی شکایات کے ازالے کی استدعا پر ازخود نوٹس لیا تھا۔

بعد ازاں 9 مئی کو چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ایک بنچ نے سانحے کی تحقیقات کے لیے پشاور ہائی کورٹ کے جج پر مشتمل کمیشن بنانے کے لیے زبانی احکامات جاری کیے تھے تاہم ہائی کورٹ کو تحریری احکامات موصول نہیں ہوئے جس کے باعث کمیشن تشکیل نہیں پایا تھا۔

عدالت عظمیٰ نے 5 اکتوبر کو کیس کی سماعت کی اور کمیشن کی تشکیل کے لیے تحریری احکامات صادر کیے۔

درخواست گزاروں کی جانب سے سب سے اہم شکایت افسران کے خلاف ہے جنہیں واقعے کے حوالے سے خطرے کا الرٹ جاری نہ کرکے غفلت کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔


یہ خبر 14 اکتوبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں