فلسطین کا اسرائیل پر سرحدی حملوں میں فوج کے بے جا استعمال کا الزام

اپ ڈیٹ 30 اکتوبر 2018
اسرائیل کے فضائی حملے سے ہلاک ہونے والے بچے کی نماز جنازہ ادا کردی گئی — فوٹو: اے پی
اسرائیل کے فضائی حملے سے ہلاک ہونے والے بچے کی نماز جنازہ ادا کردی گئی — فوٹو: اے پی

فلسطین نے غزہ کی سرحد پر اسرائیل کے فضائی حملے، جس میں 3 بچے جاں بحق ہوگئے تھے کے واقع کے بعد اسرائیل پر فوج کے بے جا استعمال کرنے کا الزام لگادیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق فلسطینیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم نے تینوں بچوں پر باڑ کو نقصان پہنچانے اور ممکنہ بم رکھنے کے الزام میں بے جا فوج کا استعمال کرتے ہوئے فضائی حملہ کرنے کا الزام لگایا۔

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق تینوں بچوں کی عمریں 13 سے 14 سال تھیں۔

مزید پڑھیں: اسرائیلی فورسز کی فائرنگ سے مزید 5 فلسطینی جاں بحق

اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ ان بچوں نے باڑ کو نقصان پہنچانے اور ممکنہ طور پر اس کے قریب بم رکھنے کی کوشش کی تھی۔

غزہ میں فلسطینی سینٹر برائے انسانی حقوق کا کہنا تھا کہ ان کی تحقیق کے مطابق تینوں بچے باڑ سے دوسری جانب دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ پیرامیڈک اسٹاف جنہوں نے غزہ کی سرحد سے بچوں کی لاشیں اٹھائی تھیں نے تصدیق کی کہ بچوں کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھے۔

انہوں نے بچوں کی عمریں 14 سے 15 سال بتائیں۔

یہ بھی پڑھیں: اقتدار ملاتو فلسطینی ریاست کو تسلیم کریں گے، سربراہ لیبر پارٹی

بعد ازاں اسرائیلی فوج کے ترجمان نے گزشتہ بیان پر قائم رہتے ہوئے مزید بات کرنے سے انکار کردیا۔

یہ سانحہ ایسے وقت میں پیش آیا جب غزہ کی سرحد پر مہینوں سے جھڑپ اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔

وزارت صحت نے جاں بحق بچوں کی شناخت 14 سالہ خالد ابو سعید، 13 سالہ محمد ابو ظہیر اور 13 سالہ محمد الستاری کے نام سے کی۔

بچوں کا تعلق باڑ سے ایک کلومیٹر دور وادی السلقا سے بتایا گیا جبکہ جاں بحق ہونے والے بچوں کی آج نماز جنازہ بھی ادا کردی گئی۔

بچوں کے پڑوسی ولید محرب کا کہنا تھا کہ انہوں نے بچوں کو جاتے ہوئے دیکھا تھا، وہ خوش تھے، ہنس رہے تھے اور میں نے انہیں اپنا خیال رکھنے کا کہا تھا۔

مزید پڑھیں: امریکا کا فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن کے دفاتر کو بند کرنے کا اعلان

بچوں نے کہا تھا کہ وہ پرندے پکڑنے جارہے ہیں۔

13 سالہ محمد کے والد ابراہیم الستاری کا کہنا تھا کہ انہوں نے دھماکے کی آواز سنی تھی اور جان گئے تھے کہ وہ مر چکے ہیں تاہم ان کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اسرائیلی فوج نے میرے بیٹے اور اس کے دوستوں کو کیوں مارا، وہ چھوٹے بچے تھے‘۔

انہوں نے مزید کہا ’اسرائیلی فوج چاہتی تو وہ انہیں پکڑ بھی سکتی تھی، انہیں معلوم ہوجاتا کہ وہ کھیل رہے ہیں‘۔

امریکی سفیر نکولے ملادینوو نے جاں بحق بچوں کے اہل خانہ سے ہمدردی کا اظہار کیا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ایسے سانحات کو کسی بھی قیمت میں ختم ہونا چاہیے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’بچوں کو تحفظ دینا چاہیے، نہ کہ ان پر تشدد کیا جائے یا کسی خطرے میں ڈالا جائے‘۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا نے فلسطینی مہاجروں کی امداد مکمل طور پر روک دی

خیال رہے کہ اسرائیلی قبضے اور مقامی افراد کو بے دخل کرنے کے 70 برس مکمل ہونے کے سلسلے میں فلسطینی عوام 30 مارچ سے مستقل ہفتہ وار احتجاج کر رہے ہیں۔

اس دوران اسرائیلی فوج سے ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں 218 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ فلسطینی اسنائپر کی فائرنگ سے ایک اسرائیلی فوجی ہلاک ہوا۔

اسرائیل کی جانب سے حماس پر الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ وہ جان بوجھ کر احتجاج میں مظاہرین کو اشتعال دلاتے ہیں تاہم حماس کی جانب سے مستقل اس بات کا انکار کیا جاتا رہا ہے۔

اسرائیل کی جانب سے جب 1948 میں فلسطین کے وسیع علاقے میں قبضہ کیا گیا تو متاثرین کی سب سے زیادہ تعداد غزہ پہنچی تھی جو موجودہ اسرائیل میں اپنی جائیدادیں اور زمینیں چھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔

اسرائیل کا موقف ہے کہ فلسطینیوں کی بڑی تعداد میں واپسی کے نتیجے میں یہودی ریاست کا خاتمہ ہو جائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں