منی لانڈرنگ کیس منطقی انجام تک پہنچائیں گے، چیف جسٹس

30 اکتوبر 2018
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار — فوٹو: ڈان نیوز/فائل
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار — فوٹو: ڈان نیوز/فائل

اسلام آباد: چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کے کیس کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے مقدمے کی آخری سماعت کراچی میں کی تھی، مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کو اب ریکارڈ ملنا شروع ہوگیا ہے اس لیے جے آئی ٹی کی رپورٹ کا انتظار کر لیتے ہیں۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) نے عدالت کو بتایا کہ 14 ارب روپے کی بے قاعدگیوں کے حوالے سے نیشنل بینک نے درخواست دائر کی تھی، اومنی گروپ کے 11 ارب 29 کروڑ کے اثاثے بینکوں کے پاس رہے ہیں جنہیں نیشنل بینک اور سندھ بینک کے قرضوں کا سوچنا چاہیے تھا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا نمر مجید عدالت میں آئے ہیں؟ جس پر نمر مجید کے وکیل نے کہا کہ نمر مجید بینکوں اور نیشنل بینک کے درمیان اسٹاک میں بے قاعدگیوں سے متعلق بات چیت کر رہے ہیں اس لیے انہیں حاضری سے استثنیٰ دیا جائے جس کو عدالت نے منظور کر لیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کے کیس کو منطقی انجام تک پہنچایا جائےگا جبکہ اومنی گروپ کی وجہ سے بینکوں کا نقصان ہو رہا ہے جو انہیں پورا کرنا پڑے گا۔

درخواست گزار سید فضل قیوم بادشاہ کے وکیل نے کیس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو فریق بنانے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ میرے موکل بزنس مین ہیں اور 8 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا معاملہ ہے، لہٰذا عدالت ایف آئی اے کے سامنے پیش ہو کر گزارشات جمع کروانے کی ہدایت دے۔

مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس، ایف آئی اے کی درخواست پر میڈیکل بورڈ تشکیل

عدالت نے درخواست مسترد کر دی اور چیف جسٹس نے کہا کہ بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ نہیں بننے دیں گے، درخواست گزار کے پاس شواہد ہیں تو جے آئی ٹی کو دیں۔

عدالت نے کیس کی سماعت 5 نومبر بروز پیر تک ملتوی کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر بینکوں کے ساتھ طے ہونے والی تفصیلات طلب کرلیں اور نمر مجید کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دے دیا۔

کیس کا پس منظر

واضح رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے 6 جولائی کو حسین لوائی سمیت 3 اہم بینکرز کو منی لانڈرنگ کے الزامات میں حراست میں لیا گیا تھا۔

حسین لوائی اور دیگر کے خلاف درج ایف آئی آر میں اہم انکشاف سامنے آیا تھا جس کے مطابق اس کیس میں بڑی سیاسی اور کاروباری شخصیات کے نام شامل تھے۔

ایف آئی آر کے مندرجات میں منی لانڈرنگ سے فائدہ اٹھانے والی آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی کمپنی کا ذکر بھی تھا، اس کے علاوہ یہ بھی ذکر تھا کہ زرداری گروپ نے ڈیڑھ کروڑ کی منی لانڈرنگ کی رقم وصول کی۔

ایف آئی آر کے متن میں منی لانڈرنگ سے فائدہ اٹھانے والی کمپنیوں اور افراد کو سمن جاری کیا گیا جبکہ فائدہ اٹھانے والے افراد اور کمپنیوں سے وضاحت بھی طلب کی گئی تھی۔

ایف آئی آر کے متن میں مزید کہا گیا تھا کہ اربوں روپے کی منی لانڈرنگ 6 مارچ 2014 سے 12 جنوری 2015 تک کی گئی جبکہ ایف آئی اے کی جانب سے آصف زرداری اور فریال تالپور کو مفرور بھی قرار دیا گیا تھا۔

جس کے بعد جعلی اکاؤنٹس کیس اور 35 ارب روپے کی فرضی لین دین سے متعلق کیس میں ایف آئی اے کی درخواست پر آصف علی زرداری اور فریال تالپور کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا۔

تاہم چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے اس بات سے انکار کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے دونوں رہنما منی لانڈرنگ کیس میں ملزم ہیں۔

جس کے بعد نگراں حکومت کی جانب سے آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکال دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: 107 اکاؤنٹس سے 54 ارب کی ٹرانزیکشنز کا انکشاف

بعدازاں فریال تالپور نے لاڑکانہ میں سندھ ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرلی تھی۔

علاوہ ازیں 35 ارب روپے کے جعلی اکاؤنٹس کیس میں 15 اگست کو ایف آئی اے نے اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور عبدالغنی مجید کو گرفتار کرلیا تھا لیکن ملزمان کی جانب سے صحت کی خرابی کا دعویٰ کیا گیا تھا۔

بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے معاملے کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی تھی۔

عدالت عظمیٰ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل احسان قریشی کو جے آئی ٹی کا سربراہ مقرر کیا تھا۔

جے آئی ٹی کے دیگر اراکین میں انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈیئر شاہد پرویز، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے محمد افضل، نیب اسلام آباد کے ڈائریکٹر نعمان اسلم، اسٹیٹ بینک کے ماجد حسین اور ٹیکس کمیشن کے عمران لطیف منہاس شامل ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں