'سپارکو نے 5 سال کا ڈیٹا مانگا ہے، ایسے تو یہ ایوان خالی ہو جائے گا'

اپ ڈیٹ 06 نومبر 2018
خورشید شاہ قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کررہے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز
خورشید شاہ قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کررہے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے تعلق رکھنے والے سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ سنا ہے سپارکو نے 5 سال کا ڈیٹا مانگ لیا ہے، ایسا ہوا تو یہ ایوان خالی ہو جائے گا، 'کیونکہ 5 سال میں فساد کرنے والوں کی اکثریت یہیں موجود ہے'۔

ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی سربراہی قومی اسمبلی اجلاس شروع ہوا تو پی پی پی کے رہنما خورشید شاہ نے کہا کہ سپارکو سے کہا گیا ہے کہ سیاسی فسادیوں کو خلا میں لے جا کر چھوڑ دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ سنا ہے سپارکو نے 5 سال کا ڈیٹا مانگ لیا ہے، ایسا ہوا تو یہ ایوان خالی ہو جائے گا، انہوں نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ 'کیونکہ 5 سال میں فساد کرنے والوں کی اکثریت یہیں موجود ہے'۔

مزید پڑھیں: ’زمین پر فساد پھیلانے والوں کو خلا میں بھیج دیا جائے‘

ان کا کہنا تھا کہ میرا مطالبہ ہے کہ سپارکو صرف 3 ماہ کا ڈیٹا مانگے۔

گزشتہ روز وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے صوبائی دارالحکومت میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں فساد پھیلانے والوں کو خلا میں بھیج دیا جائے اور ان کی واپسی کا انتظام بھی نہ کیا جائے۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہمارا اسپیس پروگرام چین کی شراکت کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے، آئندہ برس چین کے اشتراک سے پہلا پاکستانی سائنسدان خلا میں بھیجا جائے گا جس کے لیے اسپارکو نے تیاریوں کا آغاز کردیا ہے۔

اپنے روایتی انداز میں حریفوں کو نشانہ بناتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو فساد پھیلاتے ہیں، انہیں خلا میں بھیج دیا جائے اور ان کی واپسی کا سامان بھی نہ کیا جائے‘۔

قومی اسمبلی میں فساد نہیں پھیلانا چاہتے،خورشید شاہ

خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ کل جو واقعہ اسمبلی میں پیش آیا وہ ناخوشگوار تھا، ہم اسمبلی میں فساد نہیں پھیلانا چاہتے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسپیکر نے آج اپنے چیمبر میں بلایا اور اپوزیشن پہنچ گئی لیکن حکومتی رکن اسپیکر کے بلانے پر بھی نہیں آئے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ سیاست گالم گلوچ سے نہیں چلے گی، کسی کے ہاتھ میں ہتھکڑیاں نہیں ہیں، سب کے ہاتھ کھلے ہیں۔

گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں آسیہ بی بی کو بری کرنے کے عدالتی فیصلے پر احتجاج کرنے والے مظاہرین سے حکومتی معاہدے کو پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما کی جانب سے ’سرینڈر‘ کہنے پر حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے اراکین کے درمیان شدید ہنگامہ آرائی ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: مظاہرین کے ساتھ معاہدے کو ’سرینڈر‘ کہنے پر قومی اسمبلی میں ہنگامہ

بعد ازاں قومی اسمبلی کے آج کے اجلاس سے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کل ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا، کسی رکن کی گفتگو کو روک کر وزیر کو بولنے کا موقع نہیں دیا جاتا، ایوان میں نئی روایات ڈالی جا رہی ہیں۔

اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ کل قومی اسمبلی میں ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا جو نیک شگون نہیں تھا، آج چیمبر میں دونوں ارکان کی صلح کروا دی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایوان کو قواعد کے مطابق چلایا جائے گا، کل کے واقعہ سے سب کی سبکی ہوئی، ایک دوسرے کے لیے برداشت کا مادہ ہونا چاہیے۔

اس پر ملک عامر ڈوگر نے تجویز پیش کی کہ ایسے واقعات کے لیے ایوان کی اخلاقیات کمیٹی بننی چاہیے، حکومتی نشستوں سے آج کے بعد ایسے رویے کا اظہار نہیں کیا جائے گا۔

سابق ڈپٹی اسپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی نے کہا کہ حکومتی ارکان کا یہی رویہ رہا تو ایوان کو چلانا مشکل ہوگا، اگر حکومتی بینچوں سے چور اور ڈاکو کی آوازیں آئیں گی تو ہم بھی بولیں گے۔

اس موقع پر حکومت کی مخالفت کے باوجود تحریک انصاف کے رکن رمیش کمار وانکوانی نے متروکہ وقف املاک ترمیمی بل پیش کرنے کی اجازت مانگی تو وزیر مملکت علی محمد خان نے مخالفت کردی اور حکومت مخالفت پر رائے شماری میں حکومت کو شکست ہوئی جس پر بل متعلقہ کمیٹی کو بھجوا دیا گیا۔

بلوچستان میں پانی کی قلت پر توجہ دلاؤ نوٹس

قومی اسمبلی کے اجلاس میں بلوچستان میں ربی کی فصل کے لیے پانی کی قلت پر توجہ دلاؤ نوٹس پر خان محمد جمالی نے کہا کہ کھیرتھر کینال سے بلوچستان کے حصے کا مکمل پانی نہیں دیا جا رہا، ارسا اس وقت 24 سو کیوسک میں سے بلوچستان کو صرف 5 سو کیوسک پانی دے رہا ہے.

ان کا کہنا تھا کہ 2010 کے سیلاب کے بعد ہمیں کسی نے نہیں پوچھا، کسی حکومت نے ہماری مدد نہیں کی، بلوچستان والے سادے لوگ ہیں اس لیے ہمارے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے۔

اس موقع پر وزیر آبی وسائل فیصل واوڈا ایوان سے غیر حاضر تھے جس پر ارکان نے تشویس کا اظہار کیا اور برجیس طاہر نے کہا کہ سوالوں کا جواب دینا کابینہ کی اجتماعی ذمہ داری ہے، وزیروں کی پوری فوج ہے کوئی تو جواب دے۔

اقلیتوں کی مخصوص نشستیں بڑھانے کیلئے بل

پیپلزپارٹی کے رکن نوید عامر جیوا نے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں اقلیتوں کی مخصوص نشستیں بڑھانے کے لیے آئینی ترمیم کا بل ایوان میں پیش کیا۔

اس بل کو متعلقہ کمیٹی کو بھجوا دیا گیا۔

نوید عامر جیوا نے کہا کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کی جنرل نشستوں میں 2 مرتبہ اضافہ ہوچکا ہے لیکن اقلیتوں کی مخصوص نشستوں میں اضافہ کبھی نہیں کیا گیا۔

یوم اقبال پر تعطیل کا معاملہ

قومی اسمبلی کے اجلاس میں یوم اقبال پر 9 نومبر کو عام تعطیل بحال کرنے کے لیے مسلم لیگ (ن) نثار چیمہ کی جانب سے قرارداد ایوان میں پیش کی گئی۔

نثار چیمہ نے کہا کہ علامہ اقبال اور قائداعظم کے درمیان فرق نہ رکھا جائے، اگر قائد ڈے پر تعطیل ہوتی ہے تو اقبال ڈے پر بھی ہونی چاہیے۔

تاہم مسلم لیگ (ن) کے احسن اقبال کی جانب سے قرارداد کی مخالفت کی گئی، انہوں نے موقف اختیار کیا کہ پاکستان میں پہلے ہی قومی تعطیلات بہت زیادہ ہیں، علامہ اقبال نے محنت کا درس دیا، ایک دن چھٹی سے اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔

بعد ازاں حکومت کی جانب سے بھی قرار داد کی مخالفت کی گئی اور وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار خان آفریدی نے کہا کہ قومیں تب بنتی ہیں جب وہ محنت کرتی ہیں اور اپنے ہیروز ہو یاد رکھتی ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ نئے پاکستان کا ویژن یہ ہے کہ 'اب تک وزیراعظم اور کابینہ نے ایک چھٹی نہیں کی'، قومیں وہ ہوتی ہیں جو دن رات محنت کرتی ہیں۔

انسانی حقوق کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ ہم شاعر مشرق کا احترام کرتے ہیں اور ہمیں اس دن اسمبلی کا اجلاس کرکے ان کے افکار پر گفتگو کرنی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اقبال کی شاعری اور افکار کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی زور دیا کہ شاعر مشرق کے پیدائش کے دن ہمیں چھٹی نہیں کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ احسن اقبال سے بہت سی باتوں سے اختلافات کرتی ہوں لیکن اس معاملے پر احسن اقبال کی باتوں سے اتفاق کرتی ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ معزز ممبر قرارداد لانے سے قبل اپنی جماعت سے مشورہ کرلیتے تو اچھا ہوتا۔

جس پر نثار چیمہ نے اقبال ڈے کی تعطیل کے حوالے سے قرارداد واپس لے لی۔

رکن مسلم لیگ (ن) شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ قوموں کو اپنے ہیروز کو فراموش نہیں کرنا چاہیے، ڈاکٹر عبدالقدیر آجکل گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایوان ڈاکٹر قدیر کو بلائے اور ان سے سنے کہ آخر ایسا کیا ہوا، ڈاکٹر قدیر کو ان کیمرا اجلاس یا کمیٹی میں بلایا جائے۔

مولانا سمیع الحق کے قتل کے خلاف قرار داد

قومی اسمبلی میں مولانا سمیع الحق کے قتل کے خلاف وزیر مملکت علی محمد خان نے پیش کردہ متفقہ قرارداد مذمت منظور کرلی گئی۔

قرار داد کے مطابق ایوان مولانا سمیع الحق کی دینی اور سیاسی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے.

علاوہ ازیں ایوان زیریں میں سردار خالد ابراہیم کے لیے دعائے مغفرت کی گئی اور مولانا عبدالکبر چترالی نے فاتحہ کروائی۔

شہباز شریف پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ گئے

اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیشی کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب) نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو پارلیمنٹ ہاؤس پہنچایا۔

لیکن شہباز شریف کا قومی اسمبلی کے اجلاس میں ہونے والا آج کا خطاب موخر کردیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق پرائیویٹ ممبر ڈے اور ناسازی طبعیت کے باعث خطاب موخر کیا گیا تاہم وہ کل قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کریں گے۔

بعد ازاں قومی اسمبلی کا اجلاس کل (بروز 7 نومبر) صبح 11 بجے تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں