وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ حالیہ سیکیورٹی بریچ میں ’تقریباً تمام‘ پاکستانی بینکوں کا ڈیٹا چوری کرلیا گیا ہے۔

ایف آئی اے سائبر کرائمز کے ڈائریکٹر کیپٹن (ر) محمد شعیب نے نجی نشریاتی ادارے جیو نیوز کو بتایا کہ ’ہمیں ملنے والی حالیہ رپورٹس کے مطابق پاکستانی بینکوں کا ڈیٹا مبینہ طور پر ہیک کرلیا گیا ہے‘۔

معاملے پر مزید وضاحت طلب کرنے پر انہوں نے بتایا کہ ملک میں کام کرنے والے زیادہ تر بینک ہیکنگ کی زد میں آئے ہیں۔

مزید پڑھیں: سائبر حملے کا معاملہ: 10بینکوں نے بین الاقوامی ٹرانزیکشن روک دی

انہوں نے بتایا کہ ایف آئی اے نے تمام بینکوں کے سربراہان اور سیکیورٹی انتظامیہ کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’بینک، عوام کے پیسوں کے رکھوالے ہوتے ہیں اور اگر ان کی سیکیورٹی ناقص ہو تو وہ اس کے خود ذمہ دار ہوتے ہیں‘۔

محمد شعیب کا کہنا تھا کہ ’ابھی واضح نہیں کہ یہ ڈیٹا کب چوری کیا گیا‘۔

ان کے مطابق تحقیقاتی ادارہ ہیکنگ سے متعلق 100 سے زائد کیسز کی تحقیقات کر رہا ہے۔

حکام نے بتایا کہ ایف آئی اے نے گزشتہ ہفتے ایک گینگ کو پکڑا تھا جو عوام کو فوج سے وابستگی ظاہر کرکے ان سے ضروری معلومات حاصل کرکے ان کے اکاؤنٹ سے پیسے چوری کرتا تھا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز 10 بینکوں نے کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ کے ڈیٹا چوری ہونے کی اطلاعات پر اپنی بین الاقوامی ٹرانزیکشن بند کردی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: نجی بینک پر سائبر حملے کے بعد اسٹیٹ بینک کی تمام بینکوں کو نئی ہدایت

ذرائع کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان ( ایس بی پی ) کو مختلف کمرشل بینکوں کی جانب سے آگاہ کیا گیا تھا کہ ان کے صارفین کے اکاؤنٹس پر سائبر حملوں کے بعد حفاظتی اقدامات کے پیش نظر انہوں نے ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ پر بین الاقوامی ادائیگیاں روک دی ہیں۔

ڈیجیٹل سیکیورٹی ویب سائٹ کریبسن سیکیورٹی ڈاٹ کام کے مطابق تقریباً 10 پاکستانی بینکوں کے 8 ہزار اکاؤنٹ ہولڈرز کا ڈیٹا ہیکرز کی مارکیٹ میں فروخت کیا گیا۔

اس حوالے سے اسٹیٹ بینک کے ترجمان اعلیٰ عابد قمر نے ڈان کو بتایا تھا کہ اکاؤنٹ ڈیٹا کی چوری سے متعلق رپورٹ کی اس وقت تصدیق نہیں کی جاسکتی اور جب تک چوری شدہ مبینہ ڈیٹا کو اکاؤنٹس سے رقم کی چوری کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا اس رپورٹ کو درست نہیں کہہ سکتے۔

تاہم انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ کچھ بینکوں نے حفاظتی اقدامات کے پیش نظر اپنے کارڈز پر بین الاقوامی ادائیگیاں روک دی ہیں اور اس بارے میں اسٹیٹ بینک کو آگاہ کردیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ 27 اکتوبر کو بینک اسلامی کی جانب سے پہلی مرتبہ سائبر حملے کو رپورٹ کیا گیا تھا اور بینک نے کہا تھا کہ بین الاقوامی ادائیگیوں کے کارڈز سے 26 لاکھ روپے چوری ہونے کے بعد انہوں نے اس طرح کی ٹرانزیکشن روک دی ہیں اور صرف پاکستان میں اے ٹی ایم کارڈز پر باہمی تصدیق شدہ ادائیگی ہوسکتی ہے۔

اس سائبر حملے کے اگلے روز اسٹیٹ بینک نے تمام بینکوں کو ہدایت دی تھیں کہ وہ کارڈ آپریشن سے متعلق انفارمیشن ٹیکنالوجی نظام پر سیکیورٹی اقدامات کو یقینی بنائیں، اس کے علاوہ مستقبل کے چیلینجز سے نمٹنے کے لیے اسے مسلسل اپ ڈیٹ کریں۔

اسٹیٹ بینک نے بینکوں کو ہدایت دی تھی کہ کارڈ کارڈ آپریشنز سے متعلق نظام اور ٹرانزیکشن کی ریئل ٹائم مانیٹرنگ کو یقینی بنانے اور مربوط ادائیگیوں، سوئچ آپریٹرز اور میڈیا سروس فراہم کرنے والوں کے ساتھ فوری رابطے کو یقینی بنائیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں