اسلام آباد: مقامی عدالت نے کری میں بحریہ انکلیو کی مبینہ طور پر قبضہ کی گئی زمین کی کیپیٹل ایڈمنسٹریشن کی جانب سے حد بندی کے خلاف بحریہ ٹاؤن کی حکم امتناع کی درخواست مسترد کردی۔

سول جج محمد نصیر الدین نے حکم امتناع سے متعلق درخواست کی سماعت کی، اس دوران اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کے نمائندے اور دیگر حکام پیش ہوئے۔

اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے حالیہ حدبندی میں دعویٰ کیا تھا کہ ’بحریہ انکلیو نے حکومتی زمین پر 150 کینال اور 6 مرلے اراضی پر قبضہ کیا ہوا ہے‘۔

مزید پڑھیں: ’بحریہ ٹاؤن کو دھوکے سے زمین دی گئی، چاندی دے کر سونا لے لیا گیا‘

حدبندی رپورٹ کے مطابق ہاؤسنگ سوسائٹی نے ریاست کی اس زمین پر تجارتی پلازہ، گھر، پارک، زوو اور گرڈ اسٹیشن تعمیر کرلیا ہے۔

واضح رہے کہ ستمبر میں ہاؤسنگ سوسائٹی کی جانب سے ایک پرانا لے آؤٹ پلان عدالت میں جمع کرایا گیا تھا، جو 2013 میں سی ڈی اے نے منسوخ کردیا تھا اور حکم امتناع حاصل کرلیا تھا۔

سی ڈی اے کے قانونی مشیر کاشف علی ملک نے عدالت کو بتایا تھا کہ ہاؤسنگ سوسائٹی نے دھوکا دہی کے ذریعے منسوخ شدہ لے آؤٹ پلان جمع کرایا تاکہ اپنے پسند کا حکم حاصل کرسکے۔

اسی سال ہاؤسنگ سوسائٹی کی جانب سے لے آؤٹ پلان کی منسوخی کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی جبکہ عدالت میں درخواست کے زیر التوا رہنے کے دوران بڑے ریئل اسٹیٹ گروپ نے نہ صرف اپنا بحریہ انکلیو منصوبہ مکمل کیا بلکہ کچھ پلاٹس نجی کمپنیوں اور گاہکوں کو فروخت بھی کردیے۔

لے آؤٹ پلان پر سی ڈی اے رپورٹ میں الزام لگایا گیا کہ ’بحریہ ٹاؤن اپنے منصوبے بحریہ انکلیو میں ترقیاتی کام جاری رکھے ہوئے ہے جس کی توسیع تقریباً 3 گناہ زیادہ ہے جبکہ اس کا لے آؤٹ پلان بھی منظور شدہ نہیں'۔

اس حوالے سے عدالت میں سماعت کے دوران بحریہ ٹاؤن کے وکیل نے موقف اپنایا کہ ان کے موکل زمین کے قانونی مالک ہیں اور ابتدائی طور پر لے آؤٹ پلان سی ڈی اے نے منظور کیا تھا لیکن بعد میں اسے منسوخ کردیا گیا۔

انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ سی ڈی اے اور ضلعی انتظامیہ کو زمین کی مزید حد بندی کرنے سے روکا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: بحریہ ٹاؤن کیس: ’زمین کی الاٹمنٹ میں بدنیتی نکلی تو پورا ڈھانچہ گر جائے گا‘

تاہم بحریہ ٹاؤن کے وکیل کے دلائل کا جواب دیتے ہوئے سی ڈے اے کے قانونی مشیر کاشف ملک نے اعتراض کیا کہ ’ زمین کی مناسب طریقے سے ریونیو حکام کی جانب سے حد بندی کی گئی اور اس حدبندی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ بحریہ ٹاؤن نے 510 کینال اور 6 مرلے کی سرکاری زمین پر قبضہ کیا ہوا ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ اس حدبندی رپورٹ کو درخواست گزار بحریہ ٹاؤن کی جانب سے کسی مجاز اتھارٹی کے سامنے چیلنج نہیں کیا گیا جبکہ یہ حد بندی ریونیو افسران کی جانب سے کی گئی لہٰذا جب تک اس کو غلط ثابت نہیں کیا جاتا یہ درست تصور جائے گی۔

بعد ازاں عدالت نے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے حد بندی کے خلاف حکم امتناع لینے کی درخواست مسترد کردی۔


یہ خبر 09 نومبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں