5 اکتوبر کو قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف کی بدعنوانی کے الزامات پر گرفتاری نے پہلے سے ہی شکست خوردہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو ایک اور بحران میں دھکیل دیا۔ اس کے رہنماؤں کے قانون اور خاص طور پر گزشتہ 2 سالوں میں احتسابی قوانین کے ساتھ ٹکراؤ کی وجہ سے اب یہ پارٹی کے لیے اب یہ سب کچھ نیا نہیں ہے۔

دوسری جانب حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اب بھی ایسے خدشات کے بوجھ سے آزاد نظر آتی ہے۔ اب جبکہ اپوزیشن جماعتیں اب تک آپس میں ذرہ برابر بھی اتحاد پیدا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں تو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان طاقت کا توازن حکومت کی جانب جھکنے کی توقع ہے۔

یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ مسلم لیگ (ن) اب بے مقصد اور قیادت سے محروم نظر آ رہی ہے اور اس کا کام بس قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ پنجاب اسمبلی میں شور و ہنگامہ مچانا ہے جو کبھی کبھی انتہائی شدید ہوتا ہے، جیسا کہ صوبائی بجٹ کے پیش کیے جانے کے دوران دیکھا گیا۔

مگر پھر بھی حقیقی طاقتیں مسلم لیگ (ن) کو مزید تنہائی کا شکار کرنے پر آمادہ نظر آ رہی ہیں۔ ان کے حساب کتاب کے مطابق پارٹی اب بھی وسطی پنجاب میں مقبول ہے اور انتخابی میدان سے باہر نہیں ہے بھلے ہی اسے 25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس میں اب بھی دوبارہ اقتدار تک پہنچنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ احتساب کا پلڑا اسی جماعت کے خلاف کیوں بھاری ہے۔

اس تناظر میں دیکھیں تو شہباز شریف کی گرفتاری قومی احتساب بیورو (نیب) کی شفافیت، غیر جانبداری اور اس کے ارادوں کے متعلق سنجیدہ سوالات اٹھاتی ہے۔ یہی معاملہ مسلم لیگ (ن) نے دیگر رہنماؤں کو بار بار تفتیش کے لیے بلایا جانا اور سابق وزیرِاعظم نواز شریف کو بھی بدعنوانی کے مقدمے میں مجرم قرار دینا شامل ہے۔

زیادہ تر قانونی ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نیب قانون ایک تفریقی قانون ہے۔ اس قانون کے تحت بارِ ثبوت ملزم پر ہے جبکہ اعلیٰ عدالتوں نے اس شق کے خلاف صرف مختصر مدتی حدود و قیود لگائی ہیں۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ نیب قانون پرویز مشرف کی فوجی حکومت کے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے تیار کیا گیا تھا جس نے ابتدائی طور پر کرپشن مخالف مہم کے ذریعے اپنی حکومت کا جواز تلاش کرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر جب سیاسی اشرافیہ کا ایک حصہ ان کے ساتھ ہوگیا تو قانون کا اطلاق بھی انتہائی منتخب ہوگیا۔

بالآخر اس نے قومی مفاہمتی آرڈیننس (این آر او) میں موجود مزید سیاسی مہم جوئی کے لیے بھی راستہ چھوڑ دیا جس نے اپوزیشن کے سینئر رہنماؤں کے خلاف کرپشن کے کئی مقدمات ختم کردیے تھے۔ اس وقت سے نیب قانون کا منتخب اطلاق کسی نہ کسی صورت میں جاری رہا ہے۔

مثال کے طور پر شہباز شریف کو اس انداز میں گرفتار کیا گیا ہے جو عموماً صرف عدم تعاون پر آمادہ یا ان افراد کے خلاف کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جن کے ملک سے باہر چلے جانے کا خدشہ ہو۔ وہ باقاعدگی سے نیب کے سامنے پیش ہو رہے تھے اس لیے اس بات کا کم ہی امکان تھا کہ وہ ملک سے بھاگ جائیں گے۔ اس دوران کئی دیگر سیاستدانوں کے خلاف انکوائریاں کئی مہینوں سے تعطل کا شکار ہیں، جن میں سب سے اہم پنجاب میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے پاور بروکر علیم خان کے خلاف ہیں۔

نیب کی تازہ ترین کارروائیوں کے وقت اور ان کی نوعیت نے کئی نظریوں کو جنم دیا ہے۔ پہلا نظریہ تو یہ ہے کہ نیب کی اعلیٰ کمان ان لوگوں کے سیاسی مفادات کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر کام کر رہی ہے جو مسلم لیگ (ن) کو مزید کمزور کرنا چاہتے ہیں۔

دوسرا نظریہ یہ ہے کہ کچھ دیگر ریاستی اداروں کی طرح نیب کا بھی اپنے پر پھڑپھڑانا اس لیے ہے تاکہ اسے 'کرپٹ سیاستدانوں' کے خلاف ایک مؤثر ادارے کے طور پر عوامی اہمیت اور ستائش حاصل ہوسکے۔ بھلے ہی وسیع تر معاملات کو انفرادی ارادوں کے ذریعے دیکھنا کبھی کبھی مسئلہ بن سکتا ہے مگر پھر بھی اس سے کچھ حد تک یہ وجہ سمجھ آتی ہے کہ نیب کے سربراہ کے بیانات پر طرح طرح کی شہہ سرخیاں کیوں بنتی ہیں۔

پاکستان کے غیر منتخب ریاستی اہلکاروں کا اپنے لیے مسیحا کا خود ساختہ تشخص کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ان سب کے اندر سیاستدانوں کے خلاف سخت ترین ممکن ڈنڈے کے ذریعے نظام کو 'ٹھیک' کرنے کی خواہش ہے۔ ایسا ہی ایک ڈنڈا نیب بھی پیش کرتا ہے۔ 1999ء سے اب تک بیورو نے 296 ارب روپے کی وصولی کی ہے جس کا زیادہ تر حصہ کاروباری شخصیات اور سرکاری افسران سے وصول کیا گیا ہے۔

یہ اس کے سیاسی کرپشن کے خلاف محکمے کے خود ساختہ تشخص اور ایک مخصوص سیاسی جماعت کے سیاستدانوں کے خلاف اس کے حالیہ اقدامات سے متضاد ہے۔


انگلش میں پڑھیں۔ یہ مضمون ماہنامہ ہیرالڈ کے نومبر 2018 کے شمارے میں شائع ہوا۔ مزید پڑھنے لیے سبسکرائب کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں