وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے لیے سوئٹزرلینڈ سمیت 26 ممالک سے معاہدے کر لیے ہیں۔

100 روزہ منصوبے کے سلسلے میں کنونشن سینٹر اسلام آباد میں ’نئے پاکستان کی بنیاد رکھ دی‘ کے عنوان سے ایک خصوصی تقریب منعقد کی گئی جس کا افتتاح قرآن پاک کی تلاوت سے ہوا۔

وزیراعظم عمران خان نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ '100 روزہ کارکردگی کا کریڈٹ بشریٰ بیگم کو دیتا ہوں اور انہیں خراج تحسن پیش کرتا ہوں کیونکہ 100 روز میں صرف ایک چھٹی ملی اور اس دوران انہوں نے بھرپور ساتھ دیا۔'

انہوں نے کہا کہ 'جانوروں کے معاشرے میں کمزور کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی جبکہ انسانی معاشرے میں رحم اور انصاف ہوتا ہے، ہم نے 100 روز کے اندر جتنی بھی پالیسیاں تشکیل دیں اس میں غریب معاشرے کے بارے میں ضرور خیال رکھا۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارے ملک میں 3 تعلیمی نظام موجود ہیں، جو سب سے اعلیٰ تعلیمی نظام ہے وہ محدود طبقے کے لیے ہے جبکہ متوسط اور نچلی طبقے کے لیے کوئی معیاری تعلیم نہیں، لیکن ہم ایسا تعلیمی نظام لارہے ہیں جس سے معاشرے کا ہر طبقہ اور انسان معیاری تعلیم حاصل کرسکے گا۔'

عمران خان نے کہا کہ 'خیبر پختونخوا میں عام انسان کو سب سے زیادہ فائدہ صحت انصاف کارڈ سے ہوا، اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان میں ہر غریب انسان کو صحت کارڈ فراہم کیا جائے گا۔'

انہوں نے کہا کہ 'ایک اتھارٹی تشکیل دی جائے گی جس کا مقصد غربت کو ختم کرنا ہے، کرپشن غربت پیدا کرتی ہے، امیر اور غریب ممالک میں بنیادی فرق کرپشن کا تناسب ہے، جن ممالک میں قدرتی وسائل موجود ہیں وہاں کرپشن ہونے کی وجہ سے ترقی نہیں ہوتی اور پاکستان میں کرپشن کی وجہ سے ترقی نہیں کرسکے، جبکہ آج سرکاری اداروں کی موجودہ حالات کی بنیادی وجہ بھی کرپشن ہے۔'

یہ بھی پڑھیں: 100 روزہ کارکردگی اور حکومت کا منفرد اشتہار

ان کا کہنا تھا کہ 'گزشتہ حکومتوں نے تمام احتسابی اداروں کو تباہ کیا اور محض غریب لوگوں کو پکڑ کر کھاتے پورے کیے جاتے رہے، میں ان لوگوں سے مخاطب ہوں جو قومی اسمبلی میں گلا پھاڑ پھاڑ کر کہتے ہیں کہ جمہوریت خطرے میں ہے، حالانکہ ہماری حکومت نے قومی احتساب بیورو (نیب) میں ایک چپڑاسی بھی بھرتی نہیں کرایا۔'

وزیر اعظم نے کہا کہ 'ہم نے وزیر اعظم ہاؤس میں اثاثہ جات ریکوری کا شعبہ بنایا اور سوئٹزرلینڈ سمیت 26 ممالک سے رابطہ کرکے معاہدے طے ہوئے تاکہ لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جا سکے، ان ممالک سے حاصل معلومات کے مطابق پاکستانیوں کے 11 ارب ڈالر ان ممالک میں موجود ہے جن کے بارے میں مزید معلومات حاصل کی جارہی ہیں۔'

انہوں نے کہا کہ 'سوئٹزرلینڈ سے پاناما پیپرز سے پہلے والے اکاونٹس کی تفصیلات کے حصول کے لیے کام کر رہے ہیں۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'سابق حکومت میں وزیر اعظم، وزیر خارجہ سمیت دیگر وزرا نے اقامہ حاصل کیے تاکہ ان اکاؤنٹس کی تفصیلات منظر عام پر نہیں آسکے، ان وزرا نے اقامہ کے ذریعے منی لانڈرنگ کرکے کرپشن کی، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے اب تک 375 ارب کے جعلی اکاؤنٹس بے نقاب کیے جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی۔'

حکومت کی 100 روزہ کارکردگی اور مستقبل کے پروگرامز سے آگاہ کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ 'پاکستان میں 43 فیصد بچوں کو غذائی قلت کا سامنا ہے، پہلے ایک ہزار دن اچھی غذا نہیں ملے تو بچہ جسمانی اور ذہنی طور پر ترقی نہیں کر پاتے، ہم نے ایک پروگرام کے تحت 40 لاکھ بچوں اور ماؤں کو خاص غذائیں دیں تاکہ ایسے بچوں کی تعداد میں 30 سے 40 فیصد کمی آسکے۔'

انہوں نے کہا کہ 'غریبوں کے لیے اخوت پروگرام کے تحت 5 ارب روپے تفویض کر دیئے گئے ہیں، جس کے ذریعے غریبوں کے لیے گھر تعمیر کرسکیں گے۔'

بجلی مہنگی کرنے کے حوالے سے وزیر اعظم نے کہا کہ 'اس کی بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک میں بچلی بڑے پیمانے پر چوری ہوتی ہے اور ہر سالانہ 50 ارب روپے کی چوری ہوتی ہے۔'

اسلام آباد میں قبضہ مافیا سے واگزار کرائی گئی اراضی سے متعلق انہوں نے کہا کہ سی ڈی اے کے پاس پیسہ نہیں ہے لیکن اس کی 350 ارب روپے کی زمین واگزار کرائی ہے۔'

کسانوں کے حوالوں سے ان کا کہنا تھا کہ 'ٹیکنالوجی، پیسہ اور معلومات کی کمی کی وجہ سے کسان پیچھے رہ جاتا ہے، ایک پروگرام کے تحت مذکورہ تینوں شعبوں میں کسان کو معلومات فراہم کی جائے گی تاکہ وہ بھی ترقی کے دھارے میں شامل ہو سکے۔'

انہوں نے کہا کہ 'چھوٹے کسان کے لیے لاہور میں بڑی سبزی منڈی کا افتتاح کریں گے، جبکہ70 ہزار نہروں کو پکا کریں گے جن سے بھاشا ڈیم سے زیادہ پانی کسانوں کو میسر ہوگا۔'

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ 'عالمی مارکیٹ میں حلال گوشت کی مارکیٹ 2 ہزار ارب ڈالر پر محیط ہے جسے پورا کرنے کے لیے بھارت فعال ہے، لیکن پاکستان اس میدان میں پیچھے ہے، بلوچستان میں فشری کے شعبوں کو فروغ دے کر بہترین زرمبادلہ حاصل کر سکتے ہیں، جبکہ پاکستان میں جھینگے کی افزائش کے بہترین مواقع ہیں۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں سب سے پہلے اپنا نقطہ نظر بدلنا ہے، بیوروکریسی اور سیاسی جماعتوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سرمایہ کار کو سرمایہ کاری کے مزید مواقع فراہم کرنے ہیں اور اسی کی بنیاد پر غربت کا خاتمہ ہو جاگا۔'

انہوں نے کہا کہ 'برآمدات میں بہتری، سرمایہ کاری کے نئے مواقع، ترسیلات زر اور ٹیکس اصلاحات میں بہتری نہیں آئی تو ہر 2 سے 4 سال بعد آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔'

عمران خان نے کہا کہ 'پاکستان میں سیاحت کو فروغ دے کر غربت کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے اور اس سلسلے میں قومی سیاحتی شعبہ تشکیل دیا گیا ہے، اگر ملائیشیا سیاحتی آمدنی سے سالانہ 20 ارب ڈالر کماتا ہے تو پاکستان میں بے شمار سیاحتی مراکز ہیں جہاں سے ملائیشیا کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ آمدنی ہوسکتی ہے۔'

نئے قوانین اور قانونی ترامیم سے متعلق وزیر اعظم نے کہا کہ 'ایسی قانونی ترامیم کی جائیں گی جس کے تحت عدالتوں کو ایک سے ڈیڑھ سال کے اندر فیصلہ کرنا پڑے گا، بیوہ کو انصاف اور خواتین کو وراثتی حقوق کے تحفظ کے لیے قانون لائیں گے۔'

انہوں نے کہا کہ 'قانونی ترمیم کے ذریعے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے پاکستان میں اثاثوں کو تحفظ حاصل ہوگا، جبکہ لیگل ایڈ اتھارٹی کے ذریعے غریب انسان وکیل کی سہولیات حاصل کر سکے گا جو بلکل مفت ہوگا۔'

مزید پڑھیں: عمران خان کی حکومت کے 100 دن اور معاشی اعشاریے

بھارت سے بہتر تعلقات: عمران خان نے کرتارپور کی گُگلی پھینک دی، وزیر خارجہ

— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محموود قریشی نے کہا کہ 'مجھےعالمی برادری میں پاکستان کی وکالت کی ذمہ داری سونپی گئی، 100 روز میں ہماری 73 دوطرفہ انگیجمنٹ ہوچکی ہیں، اپنے منشور میں ہم نے دفتر خارجہ کو پہلے سے زیادہ مؤثر بنانے کا فیصلہ کیا اور ازسرنو خارجہ پالیسی مرتب کی گئی۔'

انہوں نے کہا کہ 'سفارتی سطح پر افغانستان ہماری پہلی ترجیح رہی، ہم نے پہلی توجہ افغانستان پر کی اور اس مسئلے پر ہوم ورک کیا، کوشش کر رہے ہیں افغانستان کے امن میں اپنا کردار ادا کریں جبکہ وزیر اعظم کی ہدایت پر میں نے پہلا بیرونی دورہ افغانستان کا کیا۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'پاکستان خطے میں امن چاہتا ہے اور اس کے لیے کوشاں ہے، وزیر اعظم عمران خان نے پہلی تقریر میں بھارت کو امن کی دعوت دی جبکہ گزشتہ روز انہوں نے کرتارپور راہداری کی گُگلی پھینک دی۔'

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ 'ایران سے ہماری طویل سرحد ہے اور پرامن سرحد ہماری ضرورت ہے، بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور ایران تعلقات میں دراڑیں پڑ جائیں لیکن ہم تمام تر رکاوٹوں کے باوجود اپنے ہمسائے سے تعلقات کو آگے بڑھائیں گے۔'

دوست ممالک بالخصوص چین سے تعلقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ 'ہم خارجہ پالیسی میں اقتصادی سفارت کاری کر رہے ہیں، پاک ۔ چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کو اگلے مرحلے میں لے جانے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور ہم نے منصوبے کا رخ موڑ کر انسانیت کی جانب کردیا ہے۔'

انہوں نے کہا کہ 'وزیر اعظم نے سعودی عرب اور عرب امارات کےدو، دو دورے کیے، 100 دن میں دوست ممالک سے منفرد مالی پیکیج ملا، 19 مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط ہوئے جبکہ اگلے چند دن میں سعودی قیادت پاکستان کا دورہ کرے گی۔'

امریکا سے تعلقات سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ 'امریکا کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات کو فروغ دینا ہوگا، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان مخالف بیان دیا تو وزیر اعظم عمران خان نے بھرپور جواب دیا، تاہم ہمیں دیکھنا ہے کہ بھارت کی موجودگی میں امریکا سے تعلقات کیسے آگے بڑھائیں۔'

وزیر خارجہ نے کہا کہ 'کشمیر ہماری خارجہ پالیسی کا اہم جز رہا اور جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا ہماری خارجہ پالیسی کا اہم جز ہی رہے گا۔'

انہوں نے کہا کہ اس موقع پر ان کشمیریوں کا پیغام دینا چاہتا ہوں کہ 'تم تنہا نہیں ہو، ہم تمھارے ساتھ ہیں اور اس مرتبہ 5 فروری کو لندن میں مل کر کشمیر ڈے منائیں گے۔'

یہ بھی پڑھیں: ’نیا 100 دن، پرانا 9 دن‘

نئے منصوبوں سے نوکریاں پیدا ہوں گی، وفاقی وزیر خزانہ

— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیرِ خزانہ اسد عمر نے اپنے خطاب میں ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’اللہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے‘۔

انہوں نے حکومت کے 100روز سے متعلق خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے آج یہ بتانا ہے کہ ہمیں ملا کیا تھا، ہم نے کیا کیا ہے اور آگے کہاں جانا ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ جب ہمیں حکومت ملی تھی اس وقت پاکستان کا قومی خسارہ بڑھ رہا تھا اور زرِ مبادلہ کے ذخائر گر رہے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ سابق حکومت میں پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کی بیواؤں کا قرض اتارنے کے لیے وفاقی کابینہ میں منطوری دے دی گئی۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہم نے پہلے یہ کام کیا کہ پاکستان کا ماہانہ 2 ارب ڈالر کا بیرونی خسارہ اب کم ہو کر تقریباً ایک ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے دوسرا کام یہ کیا کہ ہم پاکستان میں پیسہ لے کر آئے لیکن ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم آئی ایم ایف کے سامنے نہیں جھکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان آئی ایم ایف کی شرائط منظور نہیں کیں بلکہ انہیں شرائط پر قرض لیا جائے گا جو پاکستانی عوام کے حق میں ہوں گے۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ قوم کی بہتری کے لیے یو ٹرن لینا پڑے تو وزیر اعظم یو ٹرن لیں گے لیکن اپنے ذاتی مفاد میں کوئی فیصلہ نہیں ہوگا۔

وفاقی وزیر نے اپنے تیسرے کام کے بارے میں بتایا کہ انہوں نے گیس کے نرخ میں اضافہ کیا لیکن بہتری کے کئی اقدامات بھی کیے۔

انہوں نے کہا میں جانتا ہوں کہ پاکستان میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہوا، تاہم پاکستان کے عوام پر اتنا ہی بوجھ ڈالا گیا جتنا وہ لوگ برداشت کرسکتے تھے۔

’ہمیں پاکستان کو کس طرح آگے لے کر جانا ہے‘ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ تمام نوجوانوں کے پاس روزگار ہو، غریبوں کے مدد کرکے انہیں غربت کی لکیر سے نکالا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں ٹیکس کے نظام میں بہتری لانی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ تمام لوگ اپنے ٹیکس ادا کریں۔

وفاقی وزیرِ نے کہا کہ میں تفصیل میں جائے بغیر بتاتا ہوں کہ پاکستان میں 6 ہزار ارب روپے کی سرمایہ کاری کی گنجائش پیدا کی جائے گی۔

انہوں نے بتایا کہ کسانوں کی بہتری اور چھوٹی صنعتوں میں قرضوں کا اضافہ بھی کیا جائے گا۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اداروں کو فعال بناتے ہوئے انہیں کامیاب بنائیں گے۔

اسد عمر کا کہنا تھا کہ غریبوں کی فلاح کے لیے حکومت خصوصی اقدامات کیے جائیں گے جن میں ان لیے روزگار، صحت، تعلیم اور گھر جیسی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔

نوکری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں نئے آنے والے منصوبوں سے ہی نئی نوکریاں پیدا ہوں گے۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پاکستان کے تمام صوبوں بالخصوص شمالی علاقہ جات میں سیاحت کو فروغ دیا جائے گا۔

لوگ دنیا میں پاکستان کو ایک ناکام ریاست دیکھنا چاہتے ہیں، تاہم میں کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ملک کبھی ناکام ہو ہی نہیں سکتا، کیونکہ یہ ملک انسانوں کا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی دین ہے۔

100 روز کے 34 اہداف میں سے 18 حاصل کرلیے، مشیر وزیراعظم

— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

ان سے قبل وزیرِ اعظم کے مشیر کے شہزاد ارباب کا کہنا تھا کہ میں نے کئی حکومتوں کے ساتھ کام کیا ہے، لیکن پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ میرا تجربہ بہترین رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے حکومتی طریقہ کار کو بہتر کرنے کا کام کیا جس سلسلے میں کچھ ایسی تبدیلیاں بھی دکھائی دے رہی ہیں جو پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔

وزیرِاعظم کے مشیر کا کہنا تھا کہ ہم نے 34 میں سے 18 اہداف کامیابی کے ساتھ مکمل کر لیے ہیں، جبکہ 16 پر بھی کام جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے 100 روزہ ایجنڈے پر سخت محنت سے کام کیا، ہم چاہتےہیں کہ عوام حکومتی کارکردگی پر اپنی رائے دیں۔

وزیر اعظم کے مشیر شہزاد ارباب کا کہنا تھا کہ ہم نے درست سمت کا تعین کیا اور اپنی کارکردگی کو عوام کے سامنے رکھ دیا۔

انہوں نے 18 اہداف کے حوالے سے بتاتے ہوئے کہا کہ ہم نے بیرون ملک اثاثوں کی واپسی کے لیے ٹاسک فورس تشکیل دی جبکہ نئے اور بہتر بلدیاتی نظام کو حتمی شکل دی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پیداواری شعبے کی استعداد کار بڑھانے کے لیے کام کیا اور برآمدی صنعت کے لیے گیس اور بجلی سستی کردی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ سیاحت کے فروغ کے لیے قومی سیاحتی بورڈ تشکیل دیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئندہ برس کے آغاز میں حکومت اپنی پہلی صحت پالیسی کا اعلان کرنے جارہی ہے جبکہ صوبے بھی اس حوالے سے اپنی پالیسیاں جلد مرتب کرکے ان کا اعلان کردیں گے۔

وزیرِاعظم کے مشیر نے بتایا کہ سابق قائلی اضلاع میں صحت کی بہتری کے لیے صحت کارڈز کا اجرا کیا جائے گا۔

حکومت کی 100 روزہ کارکردگی کے اہداف بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے فصلوں، لائیو اسٹاک، فشریز، پانی کی مارکیٹوں کی ترقی کے منصوبے شامل کیے ہیں جبکہ دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم کو ہنگامی بنیادوں پر تعمیر کرنے کے لیے کام جاری ہے۔

شہزاد ارباب نے بتایا کہ سماجی تحفظ پروگرام وزیر اعظم کے دل کے بہت قریب ہے یہ پروگرام حکومت کے فلیگ شپ پروگراموں میں سے ایک ہوگا۔

اس موقع پر انہوں نے ان 16 اہداف کے بارے میں بھی بتایا جو تکمیل کے مراحل میں ہیں، جن میں جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ اور فاٹا سیکریٹریٹ کا قیام شامل ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جنوبی پنجاب میں علیحدہ سیکریٹریٹ آئندہ برس جون سے قبل بنایا جائے گا، جس میں علیحدہ چیف سیکریٹریز ہوں گے جبکہ اس علاقے کے لیے علیحدہ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (آئی جی) بھی ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ فاٹا سیکریٹریٹ کو خیبر پختونخوا میں ضم کردیا گیا ہے اور اب ان علاقوں کو این ایف سی ایوارڈ کا 3 فیصد دیا جائے گا۔

مشیر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت بلوچستان کی ترقی پر زور دے رہی ہے کیونکہ بلوچستان پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بلوچستان کے عوام کی اجنبیت کو ختم کرنے کے لیے وفاق اور صوبے کی اعلیٰ قیادت کے درمیان اقدامات کرنے سے متعلق بات چیت جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب حکومتی اقدامات نفاذ کی جانب جارہے ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ ترقی کے سفر میں عوام ہمارا ساتھ دیں گے۔

تقریب کے دوران وفاقی وزرا، حکومتی عہدیداران اور غیر ملکی سفارتکاروں کی بڑی تعداد شریک تھی، جبکہ اس موقع پر ملک کے نامور فنکاروں کی جانب سے اپنے فن کا بھی مظاہرہ کیا گیا۔

وزیرِاعظم عمران خان بھی حکومت کی کارکردگی پر عوام کو اعتماد میں لیں گے جبکہ معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات، 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کے منصوبے، کفایت شعاری مہم، سماجی تحفظ کے پروگرام، خارجہ پالیسی، تعلیمی اصلاحات، احتساب اور لوٹی دولت کی واپسی کے لیے اقدامات کے بارے میں قوم کو آگاہ کریں گے۔

خیال رہے کہ 2 روز قبل وزیر اعظم ہاؤس میں اجلاس ہوا تھا، اس دوران عمران خان نے تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیا۔

مزید پڑھیں: وزیر اعظم، حکومت کی 100 روزہ کارکردگی پر کل قوم کو آگاہ کریں گے

دریں اثنا وزیر اعظم کے مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ محمد شہزاد ارباب نے 6 نکاتی 100 روزہ پلان پر بریفنگ دی تھی۔

اس حوالے سے وزیر اعظم ہاؤس میں موجود ذرائع نے بتایا تھا کہ شہزاد ارباب نے اب تک حاصل کیے گئے اہداف کے ساتھ ساتھ مستقبل کے سنگ میل کے بارے میں عمران خان کو آگاہ کیا تھا۔

خیال رہے کہ حکومت کا 100 روزہ پلان 6 نکات پر مرکوز تھا، جس میں طرز حکمرانی میں تبدیلی، وفاق کی مضبوطی، اقتصادی ترقی کی بحالی، ذراعت کی ترقی اور پانی کا تحفظ، سماجی خدمات میں انقلاب اور قومی سلامتی کو یقینی بنانا شامل تھا۔

مجموعی طور پر حکومت کی جانب سے عوام سے 48 وعدے کیے تھے جن میں سے اکثر وعدوں پر کام ہی نہیں ہوسکا۔

جن وعدوں پر کام ہوا ان میں سے ایک پایہ تکمیل کو پہنچا 4 جزوی طور پر مکمل ہوئے، 28 تکمیل کے مراحل میں ہیں جبکہ 16 کو شروع ہی نہیں کیا جاسکا۔

حکومت کے 100 روز اور اقدامات

پی ٹی آئی حکومت نے 100 دنوں میں کئی اہم سنگ میل عبورکرلیے اور حکومت سنبھالتے ہی وزیراعظم عمران خان نے تبدیلی کے پروگرام کا اعلان کیا۔

ابتدائی 100 روز کے دوران 50 لاکھ گھر بنانے کے لیے پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی قائم ہوئی جبکہ چین سے پندرہ معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پردستخط ہوئے۔

قطری وزیراعظم نے عمران خان سے ملاقات میں ایک لاکھ پاکستانیوں کو ملازمتیں فراہم کرنے کی پیش کش کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کے 100 روز: ایندھن، اشیا خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ

علاوہ ازیں پاکستان کی کوششوں سے ہالینڈ حکومت اپنے ملک میں گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ منسوخ کرنے پر مجبور ہوئی۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں شاہ محمودقریشی نے مسئلہ کشمیر اٹھایا اور کلبھوشن یادیو کے ذریعے پاکستان میں پھیلائی گئی بھارتی دہشتگردی کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔

پی ٹی آئی حکومت کے اقتدار میں ہی بھارتی سکھوں کی خواہش پر کرتارپور راہداری بنانے کا آغازہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں