امریکی سیاسی تجزیہ کار نے کہا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجی حکمت عملی مکمل طور پر ناکام رہی اور اس کے نتیجے میں جنگ زدہ ملک امریکی فوجیوں کا ہی ’قبرستان‘ بن گیا۔

ایرانی نشریاتی پریس ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق لاس اینجلس سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے سابق اسٹاف ممبر روڈنے مارٹن نے کہا کہ ’افغانستان پہلے برطانوی فوجیوں، اس کے بعد سویت یونین اور اب امریکی فوجیوں کا قبرستان بن چکا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا اور روس کی افغانستان میں نئی کھینچا تانی

انہوں نے مزید کہا کہ امریکا نے برطانیہ اور سویت یونین کی تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔

افغانستان کئی دہائیوں سے ’سلطتنوں کا قبرستان‘ کہلایا جاتا ہے۔ گزشتہ دو صدیوں میں برطانیہ اور سویت یونین نے افغانستان پر چڑھائی کی لیکن مکمل اور پائیدار کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

گزشتہ سال طالبان نے امریکا کو خبردار کیا تھا کہ وہ افغانستان کو ’امریکی سلطنت کے لیے 21 ویں صدی کا قبرستان‘ میں بدل دیں گے۔

مزید پڑھیں: افغان طالبان کا عید پیغام،امریکا کو پھر براہ راست مذاکرات کی پیشکش

اس سے قبل امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں مزید فوجی بھیجنے کا عندیہ دیا تھا۔

روڈنے مارٹن نے کہا کہ ’افغانستان کے لوگ جانتے ہیں کہ امریکا نے طالبان کو تخلیق کیا اور جیسا کہ انہوں نے داعش کو تخلیق کیا‘۔

حالیہ رپورٹ کے مطابق امریکی فوجی افغانستان میں مسلسل ناکامی سے دوچار ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: روس نے ’طالبان کی مدد‘ کے امریکی الزامات مسترد کریے

امریکی فوجیوں کی ہلاکت سے متعلق عالمی ویب سائٹ کے مطابق 2 ہزار 414 امریکی فوجیوں سمیت 3 ہزار 555 دیگر امریکی اتحادی فوجیوں کی ہلاکت ہو چکی ہیں۔

رواں برس جنوری سے ستمبر کے درمیانے عرصے میں تقریباً 8 ہزار لوگوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔

افغانستان پر امریکی حملے کا تاریخی پس منظر

واضح رہے کہ 11 ستمبر 2001 کو نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے حملے کے بعد امریکا نے افغانستان پر حملے کا آغاز کیا تھا۔

امریکا کی جانب سے ان حملوں کا ذمہ دار عالمی دہشت گرد تنظیم القاعدہ اور اس کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ٹھہرایا گیا، تاہم عدم اور ناکافی ثبوتوں کی روشنی میں ہی سابق امریکی صدر جارج بش نے اسامہ کے میزبان ملک افغانستان پر یلغار کی تھی، جس کے بعد دہشت گردی کے جن نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیا۔

اس جنگ کے آغاز کے بعد سے ایک عشرے سے زائد جاری رہنے والی جنگ میں شدت پسندوں کے ساتھ ہزاروں افغان شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ متعدد بے گھر ہوگئے۔ امریکا نے اسامہ بن لادن کو اپنا اولین دشمن قرار دیا اور ان کی تلاش میں افغانستان میں بے شمار کارروائیاں کیں اور بالآخر مئی 2011 میں امریکا نے اپنے سب سے بڑے دشمن اسامہ بن لادن کو ابیٹ آباد میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔

مزید پڑھیں: روس افغان طالبان کو ہتھیار فراہم کر رہا ہے، جنرل نکولسن

نائن الیون نے امریکا کی پیشگی حملوں کی پالیسی یعنی 'بش ڈاکٹرائن' کو جنم دیا اور افغانستان، شمالی کوریا، عراق اور ایران برائی کا محور قرار پائے اور اسی پالیسی کے تحت امریکا نے ان ممالک میں کارروائیوں کا آغاز کیا.

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں چند ہزار امریکیوں کے بدلے امریکا نے لاکھوں افراد کو ہلاک کردیا، لاکھوں زخمی اور معذور جبکہ ہزاروں گرفتار ہوئے، اس کے علاوہ گوانتانامو اور ابوغریب جیسے بدنام زمانہ عقوبت خانے وجود میں آئے۔

‘ہم بہت جلد افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں‘

امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خالد زاد نے کہا ہے کہ افغان شہری امن کے متلاشی ہیں اور 4 دہائیوں سے جاری جنگ سے چھکارہ چاہتے ہیں۔

طلوع نیوز میں شائع رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہاکہ ’ہم افغانستان میں امن کے لیے تیار ہیں‘۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’افغان صدر سے لیکر عام شہری تک افغانستان میں جنگ کا خاتمہ چاہتا ہے اور اس ضمن میں مفاہمتی عمل فریقین کے مابین جاری ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ طالبان سمیت دیگر فریقین کہہ رہے ہیں کہ وہ جنگ نہیں جیت سکتے اور افغان حکومت سیاسی حل چاہتی ہے، ہم بھی سیاسی حل چاہتے ہیں، ہم افغانستان میں عالمی طاقت کی نمائندگی کررہے ہیں تو اس صورتحال میں یہ ایک اچھا موقعہ ہے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں