فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

آج کے پاکستان کے سب سے بڑے تجارتی شہر کراچی میں کبھی ایک بستی ہوا کرتی تھی جو مورڑے کہلاتی تھی۔ اس مچھیرے کے نام پر جو اس بستی کا ہیرو اور محافظ ہوا کرتا تھا۔

ہم جسے آج اس شہر میں ماری پور کے نام سے جانتے ہیں یہیں ایک چوراہا ’گل بائی چوک‘ کہلاتا تھا۔ چند سال پہلے تک، اس چوک پر ایک چاردیواری کے اندر سات قبریں ایک دوسرے سے جڑی نظر آتی تھیں۔ کہتے ہیں کہ یہی مورڑہ اور اُس کے بھائیوں کی قبریں ہیں۔

سن دو ہزار پانچ تک مورڑہ اور اس کے بھائیوں کی قبریں اسی چوراہے پر تھیں۔ ان کے گرد چھوٹی سی چاردیواری تھی۔ آتے جاتے لوگوں کی نظر بھی پڑتی تھی مگر پھر ترقیاتی منصوبوں میں حائل گردانتے ہوئے چاردیواری مسمار کردی گئی۔

کہا جاتا ہے کہ اس مقام کو لوگ ’مورڑے‘ کے نام سے جانتے تھے۔ برطانوی راج میں انگریزوں نے اس مقام کو ’موری پور‘ کا نام دیا اور آج یہ جگہ ماری پور کہلاتی ہے۔

آج اُن قبروں کے اوپر سے ایک پُل گزرتا ہے اور مقامی تاریخ کی یہ اہم یادگار بہت بڑے پُل تَلے، ترقی کی تاریکیوں میں کہیں کھو چکی۔

تقریباً پینتیس چالیس برس اس داستان پر سندھی زبان میں ایک فلم بھی بنی تھی، جس کا نام تھا "گھاتو گھر نہ آیا

کب کی بات ہے؟ یہ تو نہیں معلوم البتہ صدیوں پہلے کی ضرور ہے۔ تب، آج کا کراچی سمندری مچھیروں کا ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ جس کے ساحلوں پر تِمر کے نہایت گھنے جنگلات تھے۔

یہ وہ زمانہ تھا کہ ساحل کے نیلگوں پانیوں کو گھریلو و صنعتی گنداب، شہری آلائشوں اور بحری جہازوں سے بہائے گئے ناکارہ تیل سے اَٹ جانے کے لیے اگلی کئی صدیوں کا سفر طے کرنا باقی تھا۔ تب بحیرۂ عرب کے اِس ساحل کی بندرگاہ بھی بغل میں نہیں بلکہ کافی دور، ٹھٹھہ کی شاہ بندر کہلاتی تھی۔

مچھیروں کا وہ چھوٹا سا گاؤں آج کی دنیا کے چند بڑے اور گنجان آباد شہروں میں شامل کراچی کی وسعتوں میں کہیں کھوچکا مگر سندھ کے شاہ بھٹائی نے اپنے سُر گھاتو میں گاؤں کے اس 'گھاتو' مورڑو کی شجاعت امر بنادی۔

سندھی زبان کے لفظ 'گھاتو' مطلب ویسے تو شکاری ہے لیکن شاہ بھٹائی کے لیے مورڑہ اور اس گاؤن کے دوسرے باسی اس سے کہیں بڑھ کر تھے۔  کولاچی یا پھر کہہ لیں 'کولاچی جو کُن' (کولاچی کا تالاب) نام کے اُس گاؤں میں سات بھائی رہتے تھے جن میں سے ایک، مورڑہ کے پیروں میں لنگ تھا۔ معذوری کے سبب وہ خود تو ماہی گیری کے لیے نہیں جاسکتا تھا، البتہ اس کے بھائی روزانہ مچھلیاں پکڑنے جاتے تھے۔ یہی اس خاندان کی کفالت کا واحد ذریعہ تھا۔

زندگی کے شب و روز کی یکسانیت برقرار تھی کہ اچانک ایک دن تِمر والی ساحلی پٹّی پر کہیں سے ایک بہت بڑا مگرمچھ آگیا۔ یہ اتنا بڑا اور طاقت ور تھا کہ ایک ہی وار میں کشتیوں کو اُلٹ کر، اُن پہ سوار مچھیروں کو زندہ نگل جاتا تھا۔ کچھ مچھیروں کے مطابق یہ مگرمچھ نہیں بلکہ ایک شارک تھی مگر روایتوں میں اس طرح کے اختلافات تو ہوتے ہی ہیں۔

گاؤں والوں کے لیے حالات نہایت تشویش کا باعث تھے مگر پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے ہتھیلی پہ زندگی کا ننھا سا دِیا رکھے بدستور سمندر پہ جاتے اور ان میں سے کچھ لوٹ آتے تو کچھ اس مگرمچھ کا شکار ہو جاتے۔ پھر ایک دن یوں ہوا کہ مورڑہ کے بھائی جو گئے تو رات سر پہ آگئی مگر وہ پلٹے نہیں۔ مگر ساحل پر بیٹھے مورڑہے کی دنیا اندھیر ہو چکی تھی۔

مورڑے نے سوچا کہ اس کے بھائی تو گئے مگر جب تک یہ مگرمچھ ہے کئی دوسروں کے بھائیوں کا مقدر بھی یہی ہوگا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ مگرمچھ کو ہلاک کرکے اس کے پیٹ سے اپنے بھائیوں کی لاشیں نکال کر انہیں باعزت طور پر دفن کرے گا۔

لوگ حیران تھے کہ ایک معذور کیسے یہ کرے گا مگر مورڑے نے بھی کچھ سوچ رکھا تھا۔

مورڑے نے لوگوں کی مدد سے ایک بڑا پنجرہ تیار کیا، جس میں باہر کی جانب تیز نوکیلی سلاخیں لگی تھیں۔ پنجرہ تیار ہوگیا تو وہ اس کے اندر جا کر بیٹھ گیا اور دروازہ بند کر لیا۔ مورڑے کے ساتھیوں نے پنجرے میں بڑی بڑی رسیاں باندھیں جنہیں ساحل پر کھڑے طاقت وَر بیلوں کی کمر سے باندھ دیا۔ جب سب کچھ ہوگیا تو پنجرے کو سمندر میں دھکیل دیا گیا۔

پنجرہ سمندر کی لہروں پر بہت دیر تک ڈولتا رہا۔ دوسری طرف کئی روز سے مگرمچھ بھی بھوکا تھا اس نے پنجرے پر حملہ کیا مگر نوکیلی سلاخوں میں اس کا جبڑہ پھنس گیا۔ اس نے خود کو چھڑانے کی کوشش کی تو پنجرہ تیزی سے ہلنے جُلنے لگا۔ پنجرہ ہلا تو ساحل پر کھڑے بیلوں کی کمر سے بندھی رسیوں میں بھی تیزی سے حرکت ہوئی۔ ایسا ہونا تھا کہ کنارے پر کھڑے مچھیروں نے بیلوں کو سمندر کے مخالف ہانکنا شروع کیا۔

جب بیلوں نے چلنے میں پَس و پِیش کی تو بعض نے ان کی پیٹھ پر پرانے کپڑے رکھ کر آگ لگادی۔ پیٹھ جلی تو اڑیل بیل سر پَٹ دوڑ پڑے اور پنجرہ مگرمچھ سمیت ساحل پر کھنچتا چلا آیا۔

مچھیروں نے خونی مگرمچھ کو دیکھا تو سب انتقام کی موجوں میں بہ گئے۔ وہ بے بس تو ہو ہی ہوچکا تھا، اب جان سے بھی گیا۔ پھر اس کا پیٹ چاک کیا گیا اور مورڑے کے چھ بھائیوں کی ادھ گلی لاشیں نکال کر انہیں گاؤں کے قریب دفن کردیا۔

برسوں بعد جب مورڑہ بھی انتقال کر گیا تو گاؤں والوں نے اپنے اس ہیرو کو اس کے  بھائیوں کے برابر سپردِ خاک کیا اور یوں بہادری اور شجاعت کا یہ سچا قصہ لوک داستان میں بدل کر امر ہوگیا۔

مورڑہ تو سندھ کی ساحلی ثقافت کی تاریخ میں چلاگیا وہ اور اس کے بھائیوں کی قبریں جو مچھیروں کی چھوٹی سی بستی 'کولاچی جو کن' میں محفوظ تھیں، اب اس بڑے شہر کی ظالم ضروریات کی نذر ہوئیں۔ آخر یہاں چھوٹی بستیوں کی صدیوں پرانی نشانیوں کا کیا کام؟

خواہ وہ قبریں تِمر کی دلدلی کھاڑیوں کی تہذیبی تاریخ اور اُن کے ثقافتی ورثے کا ایک اہم باب ہیں مگر جہاں تِمر کے ساحلی جنگلات ناپید ہوچکے، وہاں تِمر والوں کی تاریخی یادگاروں کا ذکر ہی کیا کیجیے۔


 mukhtar-80 مختار آزاد کہانی کار، کالم نگار، دستاویزی فلم ساز اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

abdul latif abu shamil Aug 12, 2013 09:27am
ہاں جی ایسا ہی ہے ، کون یاد رکھتا ہے ایسوں کو ، بس ترقی ۔ اور وہ بھی کس قیمت پر جو نقش بن نہیں سکتا ، اسے مٹا ہی دو