اسلام آباد: بلوچستان حکومت نے صوبے میں تعلیمی نظام اور اس کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے تمام اساتذہ پر احتجاج کرنے، اس میں شامل ہونے یا تعلیمی سرگرمیوں سے ہڑتال پر مکمل پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

بلوچستان کی حکومت نے صوبے میں تعلیم کو لازمی سروس قرار دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے تعلیمی ایکٹ 2018 متعارف کروادیا۔

مذکورہ ایکٹ کے مطابق صوبے میں موجود تمام سرکاری اساتذہ پر تعلیمی سرگرمیوں سے ہڑتال، تعلیمی سرگرمیوں کا بائیکاٹ، احتجاج کرنے یا اس میں شامل ہونے پر پابندی ہوگی۔

ایکٹ کے مطابق خلاف ورزی کرنے کی صورت میں اساتذہ کو ایک سال قید اور 5 لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے۔

مزید پڑھیں: ‘بلوچستان میں تعلیمی نظام میں اصلاحات کی کوشش جاری ہے‘

وزیرِ اعلیٰ بلوچستان جام کمال کی سربراہی میں ہونے والے کابینہ اجلاس میں ایکٹ کو پیش کیا جائے گا جبکہ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ بلوچستان کی صوبائی کابینہ آج ہی اس ایکٹ کی منظوری دے دے گی۔

صوبائی کابینہ سے منظور کے بعد قانون سازی کے لیے اس ایکٹ کو صوبائی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔

ادھر اساتذہ برادری نے صوبائی حکومت کے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بنیادی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے جسے ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا۔

بلوچستان کے سرکاری اساتذہ ایسوسی ایشن کے صدر مجیب اللہ غرشین کا کہنا ہے کہ وہ اس حکومتی فیصلے کے خلاف احتجاج کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان: سرکاری اسکولوں کے اساتذہ ریاضی میں ’فیل‘

ادھر بلوچستان کے سیکریٹری تعلیم طیب لہری نے کہا ہے کہ حکومت صوبے میں تعلیم کے شعبے کو بہتر بنانے کے لیے اصلاحات کر رہی ہے، جبکہ حکومت تمام اساتذہ کی اسکول میں حاضری یقینی بنانے کے لیے پُر عزم ہے۔

خیال رہے کہ بلوچستان میں تعلیم سے متعلق مسائل بہت زیادہ ہیں اور یہاں اکثر افراد تعلیم حاصل کرنے سے ہی محروم ہے۔

گزشتہ دورِ حکومت میں وزیرِ اعلیٰ بلوچستان کے مشیر برائے تعلیم سردار محمد رضا بریچ نے تعلیم پر منعقدہ ایک فنکشن سے خطاب کرتے ہوئے اعتراف کیا تھا کہ بلوچستان کی نصف آبادی کو تعلیم کی سہولت میسر نہیں ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بلوچستان کے کچھ اضلاع ایسے ہیں جہاں صرف 10 فیصد افراد ہی پڑھ لکھ سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’بلوچستان میں ترقی کے بغیر پاکستان ترقی نہیں کرسکتا‘

یاد رہے کہ رواں برس گزشتہ دورِ حکومت کے وزیرِ اعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا تھا کہ صوبے میں تعلیم کی شرح بڑھانے پر خصوصی توجہ دینی ہوگی۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ صوبائی حکومت دستیاب تمام وسائل کو بروئے کار لا کر تعلیم کے فروغ کے لیے کوشاں ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ رواں برس ستمبر میں اساتذہ کی قابلیت چانچنے کے لیے منعقدہ امتحان میں سرکاری اسکولوں کے زیادہ تر اساتذہ ریاضی کے مضمون میں فیل ہوگئے تھے۔

اس امتحان کے بعد بلوچستان کے سیکریٹری ایجوکیشن نور الحق بلوچ نے کہا تھا کہ ‘میں اعتراف کرتاہوں کہ (بلوچستان میں) اساتذہ کی قابلیت بہت کم ہے’۔

تبصرے (0) بند ہیں