مریخ پر بھیجی گئی ناسا کی خلائی گاڑی پر پاکستانی کا نام

11 دسمبر 2018
ناسا کی جانب سے مریخ پر بھیجا گیا آٹھواں کامیاب خلائی مشن ہے—فوٹو بشکریہ ناسا
ناسا کی جانب سے مریخ پر بھیجا گیا آٹھواں کامیاب خلائی مشن ہے—فوٹو بشکریہ ناسا

نظام شمسی میں سے تمام سیاروں میں سے جو سیارہ اپنی خوبصورتی کو وجہ سے خاص طور پر بچوں کو محظوظ کرتا ہے وہ سیارہ زحل ہے، لیکن اسی کے ساتھ ہی سیارہ مشتری اور مریخ بھی کم نہیں ہیں، سیارہ مشتری جہاں اپنے بڑے حجم اور اس پر چلنے والے طوفان کی وجہ سے مشہور ہے وہیں سیارہ مریخ اپنی سرخی اور قطبین پر موجود برف کی وجہ سے بہت پسند کیا جاتا ہے۔

مریخ باقی 2 سیاروں مشتری اور زحل کی نسبت زمین سے زیادہ قریب ہے اور اس پر زندگی کے آثار کی جھلک بھی کہیں کہیں نظر آتی ہے جس کی وجہ سے یہ سیارہ دنیا بھر کے سائنسدانوں کو بھی خاصا پسند ہے، اسی لیے ہی امریکی خلائی ادارے ناسا کی جانب سے 8 خلائی گاڑیاں مریخ کی سطح پر اتاری جاچکی ہیں اور بہت سے ممالک کی خلائی گاڑیاں مریخ کے گردش محور بھی ہیں۔

حال ہی میں ناسا کی جانب سے اپنی آٹھویں خلائی گاڑی مریخ کی سطح پر اتاری گئی۔ اس مشن کا نام "انسائٹ مشن" رکھا گیا ہے، جس میں لفظ انسائٹ "انٹریور ایکسپلو ریشن یوزنگ سیسمک انویسٹیگشنز، جیودیسی، اینڈ ہیٹ ٹرانسپورٹ" کا مرکب ہے۔

یہ انگریزی زبان کا لفظ ہے اور اس خلائی مشن کا اصل مقصد بیان کرتا ہے، اس مشن کا اصل مقصد مریخ کے اندرون حصے کا بغور جائزہ لینا اور سیارے پر پیدا ہونے والے زلزلوں کی نشاندہی کرنا ہے۔

یہ خلائی لینڈر ناسا کے اس سے پہلے بھیجی گئی 'کیوروسٹی' اور 'اوپر چونیٹی' خلائی گاڑیوں جو مریخ کی سطح پر چل رہی ہیں سے برعکس ایسا خلائی لینڈر ہے جو ایک ہی جگہ پر ساکن کھڑا رہ کر بہت سے تجربات کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: ناسا کا ’انسائٹ‘ کامیابی سے مریخ کی سطح پر اتر گیا

انسائٹ مشن مارچ 2016 میں لانچ کیا جانا تھا لیکن اس کے ایک آلے کی جانچ کرتے ہوئے سائنسدانوں اور انجینئرز کو اس کی خرابی کا علم ہوا جس وجہ سے ناسا کو اس مشن لانچ کی تاریخ آگے بڑھانا پڑی اور اس کے لانچ کی تاریخ مئی 2018 رکھی گئی، اس خرابی کو ایک سال کے عرصے میں ٹھیک کرلیا گیا اور بار بار جانچ کے بعد ٹھیک قرار دیا گیا۔

یہاں بہت سے ساتھی یہ سوچ رہے ہوں گے کہ اگر ایک سال میں اس خرابی سے نپٹ لیا گیا تھا تو پھر سال 2017 میں اس خلائی گاڑی کو لانچ کرنے کی بجائے سال 2018 تک کیوں لے جایا گیا؟

اس کا آسان جواب یہ ہے کہ زمین سے مریخ کی جانب بہت سی خلائی گاڑیاں بھیجی گئی ہیں اور انہیں بھیجنے میں سائنسدانوں اور انجینئرز کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ خلائی سفر پر کم سے کم خرچ اور وقت لگے، تو اس لیے مریخ کی جانب جانے والی خلائی گاڑیوں کو اس وقت بھیجا جاتا ہے جب مریخ اور زمین سورج کے گرد اپنے اپنے مدار میں ایک دوسرے سے قریب ہوں۔ اس سے وقت اور خرچہ دونوں ہی کم لگیں گے۔

ریاضی کی مدد سے یہ حساب کیا جاچکا ہے کہ زمین اور مریخ ایک دوسرے کے سب سے قریب ہر 26 ماہ بعد آتے ہیں، یعنی اس کا یہ مطلب ہوا کہ سائنسدانوں اور انجینئرز کے پاس ہر 26 مہینوں بعد ایک موقع ہوتا ہے، جس کا فائدہ وہ بھرپور طریقہ سے اٹھا سکتے ہیں۔

اسی بات تو مد نظر رکھتے ہوئے مارچ 2016 کے ٹھیک 26 مہینے بعد مئی 2018 میں انسائٹ مشن کو 5 مئی 2018 کو پاکستانی وقت کے مطابق شام 4 بج کر 5 منٹ پر ونڈنبرگ اسپیس لانچ سینٹر، کیلی فورنیا سے سیارہ مریخ کی جانب روانہ کیا گیا، انسائٹ مشن پہلا 'انٹرپلینٹری' (2 سیاروں کے درمیان) مشن تھا جو کیلی فورنیا سے لانچ کیا گیا۔

مزید پڑھیں: کیا پاکستان 2022ء میں پہلا انسان خلا میں بھیج دے گا؟

اس مشن کے ساتھ چھوٹے بریف کیس کے حجم کے 2 بونے مواصلاتی سیاروں کو بھی خلاء میں چھوڑا گیا جو مریخ پر اترنے کے لیے نہیں تھے، بلکہ اس لیے تھے کہ جب انسائٹ لینڈر مریخ کی سطح پر اترے تو زمین سے اس لینڈر کا رابطہ جلدی ہو سکے، ان 2 مواصلاتی سیاروں کو 'مارکو' یا 'مارز کیوب ون' کا نام دیا گیا۔

انسائٹ لینڈر تقریبا ساڑھے 6 ماہ کی مسافت طے کرکے 26 نومبر 2018 کو پاکستانی وقت کے مطابق رات 1 بج کر 52 منٹ پر مریخ پر اترا اور ناسا کے آفس میں اس کامیاب لینڈنگ کے بعد خوشی کی لہر دوڑ گئی، یہ خلائی لینڈر اپنے ساتھ بہت سے آلات لے کر گیا ہے جن میں سے 2 آلات ایسے ہیں کہ یہ اپنی لینڈنگ کے بعد انہیں مریخ کی سطح پر رکھ دے گا۔

ان آلات میں ایک آلہ ایسا ہے جو روبوٹک آرم (ہاتھ) کی مدد سے مریخ کی سطح پر رکھ دیا جائے گا اور اس پر ایک گنبذ نما ڈبہ رکھ دیا جائے گا تاکہ اس آلے کی مدد سے لیے جانے والے ڈیٹا میں موسمی حرکات کی وجہ سے خلل واقعہ نہ ہو، یہ آلہ اپنے آس پاس ہونے والی ہلکی سی لرزش کا بھی پتا لگا لیتا ہے، اس آلے کے حساس ہونے کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر اس کے پاس ایک تتلی اپنے پر ہلائے گی تو یہ اسے بھی ڈٹیکٹ کرلے گا۔

یہ بھی پڑھیں: چاند پر انسان نے واقعی قدم رکھا تھا،یا پھر دنیا کو دھوکا دیا گیا؟

اس کے علاوہ انسائٹ لینڈر پر ایک اور آلہ بھی موجود ہے جس کو مریخ کی سطح پر اتارا جائے گا اور وہ ایک جگہ نصب ہوکر اپنے اندر موجود 5 میٹر یا 16 فٹ لمبے راڈ کو مریخ کی سطح کے اندر گاڑھ دے گا، اس راڈ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں بہت سے ایسے سینسرز لگے ہیں جو مریخ کے اندر کی گرمائش کے بارے میں ڈیٹا لے کر زمین پر بھیجیں گے۔

سائنسدانوں کا ماننا یہ ہے کہ اس سے پہلے بہت سے طریقوں سے ہم مریخ کی سطحی جانچ کرچکے ہیں لیکن ہم مریخ کے اندرونی حصے کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں، لہذا اس مشن کے ذریعے ہمیں نہ صرف سیارے کی باہری سطح کے بارے میں مزید معلومات ملے گیں بلکہ مریخ کے مرکز کے بارے میں بھی پتہ چلے گا کہ آیا مریخ کا مرکز (کور) زمین کی طرح سخت ہے یا مایا حالت میں ہے۔

انسائٹ مشن 6 میں مریخ پر پہنچا—فوٹو: ناسا
انسائٹ مشن 6 میں مریخ پر پہنچا—فوٹو: ناسا

سائنسدانوں کو اس بات کا تو علم ہے کہ زمین پر زندگی موجود ہے جبکہ مریخ پر زندگی نظر نہیں آتی اور اس کی وجہ تلاش کرنے کے لیے سطحی اور گردش کرتی گاڑیاں تو بھیجی گئی ہیں لیکن اب مریخ کے اندرونی حصوں کی تحقیق کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے انسائٹ مشن سیارہ مریخ کے اندرونی خدوخال کے بارے میں جاننے کی پہلی کوشش ہے۔

اگر سائنسدان مریخ (جہاں زندگی موجود نہیں ہے) کے اندرونی حصوں کو صحیح سے جانچنے میں کامیاب ہوگئے تو نہ صرف مریخ بلکہ ہمیں زمینی چاند، سیارہ زہرہ، عطارد اور یہاں تک کہ دوسرے ستاروں کے گرد چٹانی سیاروں کے بارے میں بھی سیکھنے کا موقع ملے گا۔

جیسا کہ ناسا کا یہ دستور رہا ہے کہ وہ کسی بھی مشن کو بھیجنے سے پہلے اس پر "انسانیت" کی مہر لگاتا ہے، یعنی مشن کوئی نہ کوئی نشانی ضرور اپنے ساتھ لے کر جاتا ہے، جس سے کائنات میں کسی کو بھی معلومات مل سکتی ہے کہ یہ انسانوں کی تیار کردہ اور انسانوں کے گرو کی جانب سے بھیجی گئی چیز ہے، اسی طرح انسائٹ مشن سے پہلے بھی ناسا نے اپنی ویب سائٹ پر ایک رجسٹریشن پورٹل کھولا تھا جس میں دنیا بھر سے کوئی بھی اپنا نام رجسٹر کروا سکتا ہے۔

اس کے نتیجے میں دنیا بھر سے تقریبا 26 لاکھ لوگوں نے اپنے نام رجسٹر کروائے، وہ تمام نام الیکٹرانک لیزر کے ذریعے ایک چھوٹی سی چپ پر لکھے گئے، جسے انسائٹ لینڈر کے عین اوپر نصب کردیا گیا تھا، ان ناموں میں بہت سے پاکستانیوں کے نام بھی موجود تھے جن میں مصنف خود بھی شامل ہیں۔


سید منیب علی فورمن کرسچن کالج یونیورسٹی، لاہور میں بی. ایس. فزکس کے طالب علم، اسٹروبائیولوجی نیٹ ورک آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ہیں.انہیں علم فلکیات کا بہت شوق ہے اور اس کے موضوعات پر لکھنا ان کا من پسند مشغلہ ہے. ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں [@muneeb227][4]


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

m imran Dec 11, 2018 11:01am
nice info, please update for the cost of mission and signal transfer time after landing?
NB Dec 11, 2018 11:42am
Well written and Very informative. Excellent work, Syed Muneeb Ali Sahib.