عریاں مناظر اور ننگی گالیاں، کیا یہی ہے نیا بھارتی فارمولہ؟

اپ ڈیٹ 27 دسمبر 2018
انتہائی اچھی کہانی کو ٹی آر پی (ریٹنگ) کی ٹہنی پر چڑھانے کے لئے چیزوں کو کچھ زیادہ ہی مصنوعی طور پر دکھایا کیا گیا ہے۔
انتہائی اچھی کہانی کو ٹی آر پی (ریٹنگ) کی ٹہنی پر چڑھانے کے لئے چیزوں کو کچھ زیادہ ہی مصنوعی طور پر دکھایا کیا گیا ہے۔

سیکرڈ گیمز کی بات تو سب ہی کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ میں سیکرڈ گیمز سے پہلے یہاں مرزاپور کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ سال رواں میں اتنی ریٹنگ بٹورنے والا اور اتنا نفع کما کردینے والا شاید ہی کوئی اور بھارتی ڈرامہ رہا ہو۔ اس ویب سیریز کو نیٹ فِلکس نے کروڑوں روپوں کی لاگت سے تیار کیا۔ کرن انشومان نے اس سیریز کی ہدایت کاری دی اور 9 اقساط پر مشتمل اس ویب سیریز کا پہلا سیزن آن ائیر ہوکر تہلکہ مچا چکا ہے۔

مرزاپور کی کہانی بہت عمدہ ہے۔ کردار بہت خوبصورت لکھے گئے ہیں اور انہیں شویتا ترپاٹھی، علی فضل، پنکج ترپاٹھی، راسیکا دوگل جیسے منجھے ہوئے تھیٹر کے بڑے ناموں نے نبھایا بھی بہت خوب ہے۔ مگر ایک انتہائی اچھی کہانی کو ٹی آر پی (ریٹنگ) کی ٹہنی پر چڑھانے کے لئے چیزوں کو کچھ زیادہ ہی مصنوعی طور پر دکھایا کیا گیا ہے۔ ذرا نوٹ کیجئےگا۔

ہر دوسرے منظر میں ماں بہن کی فحش گالیوں کی برسات

ہر قسط میں 2 سے 3 چست قسم کے عریاں مناظر

گینگسٹر کا بیٹا اپنی نوکرانی کا جابجا جسمانی استحصال کرتا دکھائی دیتا ہے تو گینگسٹر کی دوسری بیوی اپنے سوتیلے بیٹے کو للچاتی پھررہی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ اپنے گھر کے نوکر کے ساتھ بستر پر اٹھکیلیاں کرتی ہے اور بالآخر جب گھر کے سربراہ یعنی اس کے سسر صاحب کو اس کے نوکر کے ساتھ جسمانی تعلقات کی بھنک ملتی ہے تو وہ ’ترپاٹھیوں کی عورتیں، صرف ترپاٹھیوں کے لئے مخصوص ہوتی ہیں‘ (اصل ڈائیلاگ بہت فحش ہے، اسی لئے صرف اس کے مفہوم پر گزارا کیجئے) کہہ کر خود اپنی بہو کا ریپ کردیتے ہیں اور پھر اسے پستول کی نوک پر گھریلو ملازم کے ساتھ دوبارہ جنسی اختلاط پر مجبور کرتے ہیں اور یہ سب ہوتے ہوئے اپنی وہیل چئیر پر دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

فحش مکالموں، عریاں مناظر کو اگر اس سیریز سے منہا کردیا جائے تب بھی مرزاپور ایک بہت خوبصورت کہانی ہے جس کے تمام کردار اتنے جیتے جاگتے ہیں کہ انہیں ننگی گالیوں اور کپڑے اتارنے کی محتاجگی کسی صورت نہیں ہے۔

اب آتے ہیں سیکرڈ گیمز کی جانب۔ انوراگ کشپ جیسا باکمال ہدایت کار، نوازالدین صدیقی جیسا باصلاحیت اداکار اور سیف علی خان جیسا سپرسٹار سیریز کا حصہ ہو تو فحش مکالموں اور عریاں مناظر کی یہاں بھی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ مگر مرزاپور کی طرح اس سیریز میں بھی دونوں عناصر کا بھرپور مصالحہ چھڑکا گیا۔

اسکرین شاٹ
اسکرین شاٹ
اسکرین شاٹ
اسکرین شاٹ

بھارتی ویب سیریز نے کروڑوں کا نفع اینٹھنا شروع کیا ہے اور چھپر پھاڑ ٹی آر پیز دینی شروع کی ہیں تو اب ہر چینل اور پروڈکشن ہاوس اس قسم کی درجنوں ویب سیریز بنارہا ہے جس میں فحش مکالمے اور عریاں مناظر کو اولین ترجیح دی جارہی ہے۔

چند ویب سیریز جو جلد ریلیز ہونے والی ہیں اگر ان کے ٹیزر اور ٹریلر کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مرزاپور اور سیکرڈ گیمز جیسی سیریز نے ساس بہو ٹائپ ڈرامہ سیرئیلز سے عاجز آئی ہوئی بھارتی آڈینس کو ایک نئے نشے سے روشناس کرادیا ہے جسے بہت زیادہ گرم جوشی سے قبول کیا جارہا ہے۔ مرزاپور کے دوسرے سیزن کا بجٹ تخمینہ تقریباً 18 کروڑ اور سیکرڈ گیمز کے دوسرے سیزن، جس کی شوٹنگ کا آغاز بھی ہوچکا ہے، کا بجٹ تخمینہ لگ بھگ 30 کروڑ بتایا جارہا ہے۔

گنیش گائیتونڈے کا کردار ممبئی کے دلدلی علاقے سے تراشا گیا ہے۔ اس کے منہ سے بھگوان، سوسائٹی اور سسٹم کے خلاف ننگی گالیاں سننا عجب نہیں لگتا کہ شاید اس کردار کی یہی ڈیمانڈ ہے مگر ایک حالات کا مارا ایماندار پولیس انسپکٹر بھی گالیاں دے رہا ہے تو کیا مکالمے لکھنے والے اور ہدایات دینے والے اس کی کوئی توجیہہ دے پارہے ہیں؟ قطعی نہیں۔

اگر اپنی بات کروں تو میں کم از کم سیکرڈ گیمز کے پہلے سیزن میں سیف علی خان کے منہ سے بطور سکھ انسپکٹر گالیاں سن کر سراہ نہیں سکتا۔

مرزاپور جو اپنے اسکرپٹ کے کینوس کے اعتبار سے سیکرڈ گیمز سے کافی بڑی اور بہتر سیریز ہے، اس میں کم و بیش ہر کردار ہی گالیاں بک رہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ فلم کے 2 مثبت کرداروں کی چھوٹی بہن جسے پوری سیریز میں انتہائی شریف دکھایا گیا ہے، اس کی اینٹری بھی انتہائی چست لباس پہنا کر کروائی جاتی ہے۔ شاید یہ اعتراض اتنی اہمیت نہ رکھتا ہو، لیکن اگر وہ اپنے پہلے ہی سین میں اپنی انتہائی بے تکلف سہیلی سے جسم کے ناقابلِ ذکر حصے پر ہاتھ مار کر ذومعنی جملہ کسے، تو یہ دیکھنا بہت زیادہ عجیب تھا۔

اسی بے تکلف سہیلی کی چھوٹی بہن جو بہت پڑھاکو اور اصول پرست ہے، اس کا پہلا سین یونیورسٹی کی لائبریری میں فحش کتاب پڑھتے ہوئے خیالی طور پر کوئی جنسی منظر متصور کرتے ہوئے خود سے کھیلتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

یعنی ایک طرف پنکج ترپاٹھی کی دوسری بیوی کا کردار ہے جسے دکھایا ہی اخلاق باختہ عورت کے طور پر ہے، لیکن دوسری طرف جن خواتین کو بہت شریف دکھانا مقصود ہے، ان کی شخصیت کے ساتھ بھی چست لباس اور خود لذتی جیسے مخربات پیوست کردیئے گئے ہیں تاکہ ناظرین کا چسکا پورا کیا جاسکے۔ پھر مزے کی بات یہ ہے کہ ان سب خرافات کی کوئی توجیہہ نہ مرزاپور لکھنے والے پیش کرسکتے ہیں اور نہ ہی اسے ڈائریکٹ کرنے والے کہ جب کردار اور کہانی یہ ڈیمانڈ ہی نہیں کررہی تو آخر ہر ایک کردار کے ساتھ یہ سب کچھ کروانے کی ضرورت کیا ہے؟

گزشتہ 3 برسوں میں عریاں مناظر اور فحش مکالموں کی بھرمار لئے جو سیریز بھارت نے پروڈیوس کی ان میں ’دیو ڈی ڈی‘، ’ٹوسٹڈ‘، ’راگنی ایم ایم ایس ریٹرنز‘، ’گندی بات‘، قابل ذکر ہیں۔ یہ ساری سیریز اس قسم کی ہیں کہ انہیں فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

مذکورہ بالا سیریز کا بجٹ بہت کم تھا مگر فحش مناظر اور ننگے مکالموں نے ان سیریز کو بنانے والوں کو اتنا کما کر دیا کہ نیٹ فلیکس اور امیزون پرائم جیسے بڑے نیٹ ورک بھی جب بھارتی مواد پروڈیوس کرنے پر آئے تو اسی ریت اور رواج کو لے کر چلنے کو ترجیح دینے لگے۔

بادی النظر میں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ نیا بھارتی ٹی آر پی فارمولہ صرف اور صرف بولڈ مناظر اور گندی گالیوں پر ترتیب دیا جارہا ہے۔ خواہ آپ کی سیریز کا بجٹ 25 کروڑ ہی کیوں نہ ہو۔ بھلے اس میں سیف علی خان اور نوازالدین صدیقی جیسے اداکار ہی پرفارم کررہے ہوں اور انوراگ کشپ جیسا جادوگر ہدایت کار ہی سرپرست کیوں نہ بن جائے مگر جب تک آپ اپنی ہیروئنز کے لباس نہیں اتروائیں گے اور ہیرو سے ننگی گالیاں نہیں دلوائیں گے، اس وقت تک آڈینس آپ کو ’اے پلس‘ ریٹ نہیں کرے گی۔

مگر کیا بھارتی آڈینس حقیقت میں صرف ایسا دیکھنا چاہتی ہے اور کیا یہ سب کچھ پبلک کی ڈیمانڈ پر کیا جارہا ہے؟ اس سب پر میں اگلے حصے میں تفصیل سے اظہار خیال کرنا چاہوں گا۔

تبصرے (5) بند ہیں

زہرش سرفراز Dec 26, 2018 06:38pm
بہت عمدہ لکھا ہے۔ حقیقت میں بھارتی ڈرامہ تنزلی اور گراوٹ کا شکار ہے۔
طاہر یاسین طاہر Dec 26, 2018 07:19pm
ایک عمدہ تحریر، ہمیشہ موضوع پر خوب تحقیق کرتے ہیں آپ شاہ جی۔۔۔ جیتے رہیں
Yousuf Ansari Dec 26, 2018 11:17pm
لکھائی میں کیا روانی ہے ۔۔ سپرب
RM Dec 27, 2018 07:11am
عریانی اور گالی گلوچ کے مناظر اب ہمارےمستقبل سے پیوست ہو چکے ہیں۔ اچھے اور برے تمام انسانوں میں سےرہی سہی اچھاٸ کو اختتام پذیر دکھایا جارہا ہے۔ اسکا سبب صرف وہی قوتیں جانتی ہیں جوانسانوں کے مستقبل کو مکمل کنٹرول کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ فلم اور میڈیا اس منصوبے کا ایک اہم جزو ہیں۔
Sadia abbasi Dec 27, 2018 11:49am
What an analysis