جعلی اکاؤنٹ کیس: جے آئی ٹی کی حسین لوائی اور عبدالغنی مجید سے تفتیش

20 دسمبر 2018
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے ڈیڑھ گنٹھے سے زائد تفتیش کی—فائل فوٹو
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے ڈیڑھ گنٹھے سے زائد تفتیش کی—فائل فوٹو

راولپنڈی: جعلی اکاؤنٹ کیس میں 3 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم(جے آئی ٹی) نے اڈیالہ جیل میں کراچی اسٹاک ایکسچینج کے سابق چیئرمین حسین لوائی اور اومنی گروپ کے عہدیدار عبدالغنی مجید سے تفتیش کی۔

جے آئی ٹی کی سربراہی وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف اکنامک کرائم ونگ احسن صادق نے کی جبکہ انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈیئر شاہد پرویز اور ایف آئی اے کے ڈاکٹر محمد رضوان بھی شامل تھے۔

جے آئی ٹی کی جانب سے دونوں ملزمان سے ڈیڑھ گھنٹے سے زائد تفتیش کی، جس کے بعد مشترکہ تحقیقاتی ٹیم عدالت عظمیٰ میں آج(جمعرات) کو رپورٹ پیش کرے گی جبکہ کیس کی آئندہ سماعت 24 دسمبر کو ہوگی۔

مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ

خیال رہے کہ اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو اگست میں ایف آئی اے کی جانب سے گرفتار کیا گیا تھا۔

عبدالغنی مجید ان ملزمان میں سے ایک تھے جنہیں 5 دسمبر کو کراچی سے اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا تھا، بعد ازاں عدالت میں پیشی کے لیے انہیں راولپنڈی لایا گیا تھا جس کے بعد 11 دسمبر کو دوبارہ اڈیالہ جیل منتقل کردیا تھا۔

اس سے قبل 29 نومبر کو سپریم کورٹ نے کراچی میں قید حسین لوائی اور عبدالغنی مجید کو نجی طیارے کے ذریعے اڈیالہ جیل منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔

چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے متعلقہ انتظامیہ کو حکم دیا تھا کہ وہ ملزمان کو کراچی سے اڈیالہ جیل منتقل کریں اور انہیں عدالت کے سامنے پیش کریں۔

یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس منطقی انجام تک پہنچائیں گے، چیف جسٹس

عدالت کی جانب سے ریمارکس دیے گئے تھے کہ ملزمان بااثر اور طاقتور لوگ ہیں اور یہ جے آئی ٹی کی تحقیقات پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔

یاد رہے کہ اس کیس کے سلسلے میں سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور سمیت مختلف لوگوں سے تحقیقات کر رہی ہے۔

رپورٹس کے مطابق آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ 2008 سے وہ کسی کاروباری سرگرمی میں ملوث نہیں رہے اور صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تمام کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں سے الگ کرلیا تھا۔


یہ خبر 20 دسمبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں