امریکا کے نائب وزیر خارجہ بریٹ میک گروک نے جنگ زدہ ملک شام سے امریکی فوجیوں کی واپسی سے متعلق صدر ٹرمپ کے فیصلے پر اختلاف کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔

الجزیرہ میں شائع رپورٹ کے مطابق شام میں داعش کے دہشت گردوں کے خلاف جاری امریکی کارروائی کی نگرانی کرنے والے خصوصی مندوب بریٹ میک گروک نے امریکا کے صدر ڈونلڈٹرمپ کے ’ہنگامی‘ فیصلے سے شدید اختلاف کرتے ہوئے اپنا استعفیٰ سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو کے بھیجوا دیا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا فوری طور پر شام سے واپس چلا جائے، ایرانی صدر

واضح رہے کہ شام سے امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کے فیصلے کے خلاف سیکریٹری دفاع جم میٹس نے بھی استعفیٰ دیا تھا۔

پیش کردہ استعفیٰ میں بریٹ میک گروک نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’شام میں داعش کو شکست نہیں ہوئی، ابھی جنگ جاری ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ شام سے امریکی فوجیوں کا قبل از وقت انخلا داعش کو از سرنو منظم کرے گا۔

مزیدپڑھیں: شام میں امریکا کی موجودگی ابتدا ہی سے’غیر منطقی‘ تھی، ایران

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے رواں ہفتے مشرقِ وسطیٰ میں تعینات 2 ہزار فوجیوں پر مشتمل دستہ واپس بلوانے کا اعلان کیا گیا تھا، جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کا یہ اقدام شام میں 7 سال سے جاری مسئلے کا سفارتی حل نکالنے میں مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔

امریکی صدر کے اعلان کے بعد ترکی اور امریکا میں جاری ایک مزاحمتی کشمکش کا خاتمہ ہوگا کیونکہ ایک طویل عرصے سے ترک صدر امریکا، اپنے نیٹو اتحادی، پر شام میں کرد باغیوں کی حمایت کرنے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔

واضح رہے کہ ترکی، کرد باغیوں کو دہشت گرد تصور کرتا ہے جس کی ایک شاخ کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) بھی ہے، جو ترکی کے سرحدی علاقے میں کرد خود مختاری کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کی عراق میں ایرانی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی دھمکی

جرمنی نے خبردار کیا تھا کہ شام سے فوجوں کی واپسی کا امریکی فیصلہ ’حاصل کردہ کامیاب نتائج‘ کو تباہ کردے گا۔

وزیر خارجہ ہیکو ماس نے کہا تھا کہ ’داعش کو دھکیل دیا گیا لیکن خطرہ تاحال موجود ہے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں