بنگلہ دیش میں انتخابات سے قبل صحافیوں پر حملہ، 10 زخمی

25 دسمبر 2018
بنگلہ دیش میں انتخابی مہم کے دوران لی گئی تصویر — فوٹو: اے ایف پی
بنگلہ دیش میں انتخابی مہم کے دوران لی گئی تصویر — فوٹو: اے ایف پی

بنگلہ دیش میں انتخابات سے چند روز قبل نواب گنج میں حکمراں جماعت کے مسلح کارکنان نے صحافیوں پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں 10 صحافی زخمی ہوگئے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق بنگالی روزنامہ جگانتر سے وابستہ صحافی مسعود کریم نے بتایا کہ ’24 دسمبر کو رات گئے مسلح افراد نے نواب گنج کے ایک موٹل پر حملہ کیا، جہاں مقامی میڈیا سے وابستہ صحافی ٹھہرے ہوئے تھے‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’مسلح حملہ آوروں نے 16 گاڑیوں کے شیشے توڑے اور حملے کے دوران جگانتر اور جمنا ٹی وی کے 10 صحافی بھی زخمی ہوئے‘۔

مسعود کریم نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ پولیس کو حملے کی اطلاع دی گئی لیکن وہ فوری طور پر جائے وقوع پر نہیں پہنچی۔

جگانتر اخبار کے مطابق ان کے ایک رپورٹر پیر کی شام سے لاپتہ بھی ہیں۔

مزید پڑھیں : بنگلہ دیش: انتخابات سے قبل اپوزیشن امیدواروں کی گرفتاریاں

انہوں نے حکمراں جماعت عوامی لیگ پارٹی کے اسٹوڈنٹ اور یوتھ ونگز کو حملے کا ذمہ دار قرار دیا، جبکہ پولیس کا کہنا تھا کہ حملہ نامعلوم افراد کی جانب سے کیا گیا۔

ضلعی پولیس چیف شفیع الرحمٰن نے بتایا کہ ’ہم نے صحافیوں کو حملہ آوروں سے بچایا‘، انہوں نے پولیس کی جانب سے بروقت کارروائی نہ کرنے کے الزامات کو بھی مسترد کیا۔

جگانتر اور جمنا اخبار کے مالکان حملہ آوروں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کر رہے ہیں، لیکن پولیس چیف نے کہا کہ اس حوالے سے باضابطہ طور پر کوئی شکایت درج نہیں کروائی گئی۔

بنگلہ دیش میں 30 دسمبر کو ہونے والے انتخابات سے قبل اشتعال انگیزی جاری ہے، اس حوالے سے اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ان کے سیکڑوں کارکنان اور درجنوں امیدوار حکمراں جماعت کے کارکنان کی جانب سے کیے گئے حملوں میں زخمی ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ اب تک مختلف حملوں میں 6 افراد ہلاک بھی ہوئے جن میں سے 2 کا تعلق حکمراں جماعت سے ہے۔

یہ بھی پڑھیں : بنگلہ دیش: خالدہ ضیاء کی رہائی کا فیصلہ معطل

نجی این ٹی وی اسٹیشن کے آن لائن ایڈیشن نے بتایا کہ منشی گنج ضلع میں حکمراں جماعت کے کارکنان نے 2 نیوز کیمرا مین پر حملہ کیا تھا۔

بنگلہ دیش فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (بی ایف یو جے) نے حملہ آوروں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔

بی ایف یو جے کے سربراہ ملا جلال کا کہنا تھا کہ ’ریاست اور حکومت کو ذمہ داری ادا کرتے ہوئے ایسے حملوں کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔

بنگلہ دیش میں ان دنوں آزادی صحافت کا موضوع زیر بحث ہے کیونکہ اپوزیشن اور انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کو متنازع پریس قوانین کی وجہ سے تنقید کا سامنا ہے۔

خیال رہے کہ 1990 سے لے کر اب تک بنگلہ دیش میں حسینہ واجد یا خالدہ ضیا نے اپنی حکومتیں قائم کی ہیں اور یہ دونوں طاقتور خواتین ایک وقت میں قریبی اتحادی رہنے کے بعد اب ایک دوسرے کی خطرناک سیاسی دشمن بن چکی ہیں۔

حسینہ واجد نے انتخابی مہم کے دوران ملکی معاملات چلانے کے لیے نگراں حکومت کی اجازت دینے سے بھی انکار کر دیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں