کابل: افغانستان میں 17 سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے بعد افغانستان کے صدارتی الیکشن 20 جولائی تک ملتوی کردیے گئے۔

فرانسیسی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق گزشتہ کئی ہفتوں سے قیاس آرائیاں جاری تھیں افغانستان میں امن مذاکرات کے مواقعوں کو توسیع دینے کے لیے انتخابات ملتوی کیے جاسکتے ہیں جس کے بعد آزاد الیکشن کمیشن (آئی ای سی)نے صدارتی انتخاب 3 ماہ کے لیے ملتوی کردیے۔

واضح رہے کہ افغان صدارتی انتخابات کے لیے20 اپریل کی تاریخ مقرر کی گئی تھی جسے مبصرین نے غیر حقیقی قرار دیا تھا کیوں کہ آئی ای سی کو ا ب تک اکتوبر میں ہونے والے پر تشدد انتخابات کے نتائج کو حتمی شکل دینی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان کا صدارتی انتخاب غیر معینہ مدت تک ملتوی

اس حوالے سے آئی ای سی کے سربراہ عبدالبادی سید نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ صوبائی اور ضلعی کونسلوں اور اس سے قبل صوبہ غزنی میں ملتوی ہونے والے پارلیمانی انتخاب بھی اسی روز منعقد کیے جائیں گے۔

اس حوالے سے صدر اشرف غنی، جو دوسری مرتبہ الیکشن لڑنے کے خواہشمند ہیں، کے ترجمان ؤ ہارون نے نئی تاریخ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ’افغان حکومت آئی ای سی کے فیصلے کا احترام کرتی ہے اور جولائی میں ہونے والے الیکشن کے لیے کمیشن کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں‘۔

سرکاری طور پر انتخابات میں التوا کی وجہ اپریل میں افغانستان میں شدید سرد موسم اور 4 علیحدہ انتخابات کے انعقاد کے لیے درپیش اخراجات اور مختلف پولنگ اسٹیشنز پر سیکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کو قرار دیا گیا۔

مزید پڑھیں: افغان امن عمل پر عالمی کانفرنس، طالبان اور افغان حکومت شرکت پر رضامند

اس کےساتھ انتخابات کا انعقاد کرنے والوں کو عملے کی بھرتی کرنے، انہیں بائیو میٹرک مشینوں کے استعمال کی تربیت فراہم کرنے کےلیے، اور اس ضمن میں دیگر مسائل کو حل کرنے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔

عبدالبادی سید کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ انتخابات سے حاصل ہونے والے سبق کی بنیاد اور اصلاحات متعارف کروانے کے لیے وقت کی اجازت کے سلسلے میں ہمیں انتخابات کی گزشتہ تاریخ پر نظرِ ثانی کرنی پڑی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ چاروں الیکشن کے انعقاد کے لیے نئی تاریخ کا فیصلہ سیاسی رہنماؤں، سیکیورٹی ایجنسیز اورسرکاری اداروں کے ساتھ ہونےوالے غیر معمولی مذاکرات کے بعد کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں انتخابات کا دوسرا دن، دہشتگردی کے واقعات میں 12 افراد ہلاک

دوسری جانب بہت سے افغان شہریوں کو خدشہ ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد اشرف غنی کی حکومت زمین بوس ہوسکتی ہے اور طالبان دوبارہ طاقت حاصل کرسکتے ہیں جو دوبارہ بھر پور خانہ جنگی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔

ایک جانب یہ خدشات بھی سر اٹھا رہے ہیں کہ اب نئی تاریخ کے مطابق صدارتی انتخابات طالبان کے روایتی لڑائی کے موسم میں ہوں گے جس سے پرتشدد واقعات کی لہر اٹھ سکتی ہے اور عسکریت پسند ووٹ میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔


یہ خبر 31 دسمبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں