کابل: امریکا کے افغانستان سے ہزاروں فوجیوں کے انخلا کے منصوبے پر افغانستان کے پڑوسی ممالک کے سفیروں نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکی فوج کی واپسی سے لاکھوں افغانی ان کے ممالک کی سرحد پار کرسکتے ہیں۔

امریکی حکام سے اس حوالے سے بات چیت کرنے والے پڑوسی ممالک کے سفیروں کا کہنا تھا کہ ’وہ اپنی سرحد کے حوالے سے پالیسیز پر نظر ثانی کر رہے ہیں اور سرحد کے لیے تیاریاں بھی کریں گے‘۔

کابل میں سینیئر ایشیائی سفیر کا کہنا تھا کہ ’فی الوقت ہم فوجی انخلا کے حوالے سے کچھ بھی وضاحت نہیں کرسکتے تاہم صورتحال فوری طور پر بد سے بدتر کی جانب جاسکتی ہے‘۔

واضح رہے کہ وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ امریکی صدر نے پینٹاگون کو افغانستان سے فوج کے انخلا کے احکامات جاری کیے ہیں۔

تاہم امریکا انتظامیہ نے ان رپورٹس کو مسترد کردیا تھا۔

سرحدی سیکیورٹی

پاکستان کی افغانستان سے ملتی سرحر کے 1400 کلومیٹر طویل حصے پر باڑ لگانے کا کام جاری ہے جبکہ اس ہی سرحد پر 50 ہزار پیراملٹری فورسز بھی تعینات کیے گئے ہیں اورحالیہ صورتحال کے پیش نظر پناہ گزینوں کی واپسی پر بھی کام ہو رہا ہے۔

حکام نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’سرحد کے قریب کیمپس بنائے جائیں گے جو نئے آنے والے افغان پناہ گزیوں اور غیر قانونی مہاجرین کے لیے ہوں گے، افغانیوں کو پاکستان میں غیر قانونی گھر بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہی گزین کے مطابق افغانستان جس کی سرحد پاکستان، ایران، ترکمنستان، ازبکستان، تاجکستان اور چین سے ملتی ہے، دنیا کا دوسرا بڑا ملک جہاں سے بڑی تعداد میں لوگ دوسرے ممالک میں پناہ لیتے ہیں۔

عالمی ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق تقریباً 14 لاکھ افغان پاکستان میں قیام پذیر ہیں اور تقریباً 12 لاکھ ایران میں ہیں۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 2 جنوری 2019 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں